امریکی صدر اوباما چین کے بعد جنوبی کوریا پہنچ گئے
18 نومبر 2009صدر اوباما نے بیجنگ کے عظیم عوامی ہال میں وزیراعظم وین جیاباؤ کی جانب سے دئے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ صدر اوباما کے اس دورے میں دونوں جانب سے باہمی تعلقات کے فروغ اور مضبوط روابط کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دورہ چین کے بعد جنوبی کوریا روانگی کے موقع پر صدر اوباما نے کہا ہے کہ ان کا یہ دورہ ’نہایت تعمیری‘ رہا، جس میں اہم عالمی معاملات پر اتفاق رائے کی کوششوں میں پیش رفت ہوئی۔
صدر اوباما نے کہا کہ ماضی میں چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کا مرکز صرف اقتصادیات اور تجارت رہے ہیں تاہم اب وقت آگیا ہے کہ دائرہ وسیع کر کے انہیں اہم عالمی مسائل تک پھیلا دیا جائے۔
گزشتہ روز صدر اوباما کی ان کے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ دونوں ممالک نے تعلقات کے استحکام کے لئے اعلیٰ سطحی روابط میں اضافے کو بھی اہم قرار دیا۔ اوباما کی جانب سے چینی صدر کو اگلے برس دورہ امریکہ کی دعوت دی گئی، جسے ہوجن تاؤ نے قبول کر لیا۔
اس اعلامیہ میں اہم بین الاقوامی امور سے متعلق کہا گیا کہ امریکہ اور چین جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور ترقی کے لئے مل کر کام کریں گے۔ ایران اور شمالی کوریا کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں نے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہر زور دیا۔ مشترکہ بیان میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے پاکستان اور افغانستان کی مدد کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لئے بھی دونوں ملک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گے۔ مشترکہ اعلامیہ پر بھارت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹوں میں کہا گہا ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان باہمی تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے کسی تیسرے فریق کی کوئی جگہ نہیں بنتی تاہم نئی دہلی میں امریکہ سفیر نے اس مشترکہ اعلامیے کو انتہائی مثبت قرار دیا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : گوہر نذیر