امریکی فوجی حکمت عملی، اب افغانستان سے آگے
9 فروری 2011'نیشنل ملٹری اسٹریٹیجی2011 ء' میں امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے افغانستان اور پاکستان کے تعاون سے شدت پسندی کے خلاف جنگ کی یقین دہانی تو کروائی ہی ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی فوج کو دیگر علاقوں میں ابھرتے خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنا دائرہ کار وسیع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
مائیک مولن نے 'چیئرمینز کارنر' نامی اپنے بلاگ میں لکھا ہے،" تشدد پر مبنی شدت پسندی اور جارحیت سے نمٹنے کے لیے اپنے طریقہ کار میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ، اس نئی حکمت عملی میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ہماری فوجی قوت اسی صورت میں زیادہ کارگر ہو سکتی ہے، جب یہ طاقت کے دیگر عناصر کے ساتھ مل کر کام کرے"۔ مائیک مولن کے بقول عوامی امنگوں پر مشتمل خارجہ پالیسی اور سویلین لیڈر شپ امریکی سلامتی سے متعلق خطرات سے نمٹنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
یہ حکمت عملی دراصل ایک ایسی دستاویز ہے، جس میں وسیع معنوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ فوج امریکی سلامتی سے متعلق اہداف حاصل کرنے کے لیے کس طرح اپنے دستوں کی تربیت اور انہیں استعمال کرنا چاہتی ہے۔
اس سے قبل امریکی ملٹری اسٹریٹیجی 2004ء میں جاری کی گئی تھی۔ اُس حکمت عملی میں غیر متوقع حملوں اور شدت پسند گروپوں کی کسی ممکنہ کارروائی سے درپیش خطرات سے امریکہ کی حفاظت کو مرکزی حیثیت دی گئی تھی۔ تاہم موجودہ دستاویز ایسے خطرات سے کہیں آگے کے معاملات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس حکمت عملی میں علاقائی اور بین الاقوامی اشتراک کے ذریعے عالمی سلامتی کو بہتر کرنے اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے افواج کی تنظیم نو کی بھی بات کی گئی ہے۔
ایک سینئر امریکی ملٹری افسر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، "ہماری توجہ کا مرکز مستقبل کی فوج کی تیاری اور عالمی اور علاقائی استحکام ہے"۔ اس سینئر فوجی افسر کے بقول گزشتہ سات سالوں کے دوران امریکی سلامتی کو درپیش معاملات کی شکل کافی تبدیل ہوگئی ہے اور امریکہ کو آج ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں زیادہ وسیع چیلنجز درپیش ہیں، ان میں چین اور بھارت جیسی ابھرتی قوتوں اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے علاوہ معاشی توازن میں تبدیلی اور قدرتی وسائل کے لیے بڑھتا مقابلہ وغیرہ شامل ہیں۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: امجد علی