امریکی قید سے اہم طالبان قیدیوں کی افغان حکومت کو منتقلی کا امکان
30 دسمبر 2011نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق طالبان دور کے اہم فوجی کمانڈر محمد فضل وہ ایک اہم قیدی ہے ، جس کو جلد افغان حکومت کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔ محمد فضل سن 2002 سے امریکی قید خانے گوانتنامو بے میں مقید ہے۔ محمد فضل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سن 1998 سے 2000ء کے درمیان افغانستان کی شیعہ اقلیت کے قتل میں ملوث تھا۔ اس قتل عام میں ہزاروں شیعوں کو تہ تیغ کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ محمد فضل انسانی حقوق کے منافی سرگرمیوں میں بھی ملوث بتایا جاتا ہے۔
اوباما انتظامیہ کرزئی حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے دوران اعتماد سازی کے حوالے سے محمد فضل سمیت پانچ قیدیوں کو کرزئی حکومت کی تحویل میں دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ قیدی منتقلی کے بعد بھی مقید ہی رکھے جائیں گے۔ افغانستان میں سرگرم طالبان ان پانچ قیدیوں کی منتقلی کی تجویز پیش کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان سے باہر اپنے دفتر کے قیام کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اس مناسبت سے ایسے اندازے سامنے آ چکے ہیں کہ خلیجی ریاست قطر میں طالبان کا دفتر کھولا جا سکتا ہے۔ ایسی اطلاعات پر کابل حکومت نے قطر سے اپنے سفیر کو بھی طلب کرنے کے علاوہ امریکہ کی جانب سے اسے بے خبر رکھنے پر برہمی کا بھی اظہار کیا تھا۔ امریکی حکام گزشتہ دس ماہ سے انتہاپسند طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان قیدیوں کی ممکنہ منتقلی پر امریکی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکی صدر اوباما جلد ہی ایک قانونی دستاویز پر دستخط کرنے والے ہیں، جس کے تحت امریکی وزارت دفاع مختلف سکیورٹی تقاضے مکمل کرنے کے بعد دہشت گردی کے شبے میں مقید قیدیوں کو ان کے وطن روانہ کر سکی گی۔ اس مناسبت سے امریکی سینیٹ میں انٹیلیجنس کمیٹی میں شامل ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ساکس بائی چیم بلِس (Saxby Chambliss) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن قیدیوں کو افغانستان منتقل کیا جا رہا ہے وہ مسلسل امریکہ اور اس کے مفادات کے لیے خطرہ رہیں گے۔ کانگریس میں اس مناسبت سے اراکین میں سخت تقسیم پائی جاتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کو ارسال کیے گئے خطوط کی تصدیق اوباما انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی کی ہے۔
امریکہ میں انتہاپسند طالبان کے ساتھ مجوزہ پلان کے حامی بھی خیال کرتے ہیں کہ کسی بھی ممکنہ ڈیل کے امکانات بہت کم ہیں۔ طالبان اب بھی امریکیوں کو بے دین قرار دینے کے علاوہ افغانستان میں متعین امریکی اور نیٹو فوج کے اہلکاروں پر حملوں سے گریز نہیں کر رہے۔ اوباما کے مخالفین تو پہلے ہی طالبان کی جانب سے مذاکرات پر رضامندی پر یقین نہیں رکھتے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ