امریکی ڈرون حملے میں پاکستانی طالبان کا اہم کمانڈر ہلاک
19 مارچ 2015پاکستانی طالبان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ کمانڈر خاوری (خاورے) محسود کے ساتھ دو دیگر افراد کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔ بیان میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت اور مرنے والے کمانڈر کے ساتھ تعلق کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ترجمان نے اِس امر کی تصدیق کی کہ ہلاک ہونے والے تینوں جنگجُو افغان ریاستی علاقے میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ جس علاقے میں خاوری محسود اور اس کے دو ساتھیوں کی ہلاکت ہوئی، وہ پاکستانی قبائلی پٹی کُرم ایجنسی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے بھی اس ڈرون حملے کی تصدیق کی ہے۔
خاوری محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے سے تھا اور وہ اُن ابتدائی افراد میں شامل تھا، جنہوں نے سن 2007 میں پاکستانی طالبان کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ پاکستانی طالبان کے ترجمان محمد خراسانی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ خاوری محسود طالبان کے پہلے لیڈر بیت اللہ محسود اور پھر دوسرے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ساتھ انتہائی گہرے روابط رکھتا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی طالبان کے پہلے اور دوسرے سربراہ، دونوں کو امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے ٹارگٹ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔ خاوری محسود کو حکیم اللہ محسود کا قابلِ اعتماد دستِ راست اور ذاتی مخافظ خیال کیا جاتا تھا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ترجمان نے پاکستانی طالبان کے اس سینیئر کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی۔ نیٹو کے ترجمان نے البتہ یہ ضرور کہا کہ امریکی فوج کی جانب سے دو حملے مشرقی افغانستان میں کیے گئے تھے۔ نیٹو کے مطابق یہ حملے کنڑ اور خوست کے افغان صوبوں میں کیے گئے تھے اور یہ دونوں علاقے پاکستان میں کُرم کے قبائلی علاقے سے متصل ہیں۔
پاکستانی طالبان اپنے آپ کو افغان عسکریت پسندوں کے ساتھ جہادی نظریے کی بنیاد پر ایک ہی صف میں شمار ضرور کرتے ہیں لیکن وہ اپنی اپنی مسلح کارروائیاں علیحدہ علیحدہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ نئے ڈرون حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب کابل اور اسلام آباد تناؤ کے شکار باہمی تعلقات میں بہتری کی کوششوں میں ہیں۔ ماضی میں دونوں ملک ایک دوسرے پر جہادیوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں تاہم افغانستان میں صدر اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاک افغان تعلقات میں خاصی بہتری محسوس کی جا رہی ہے۔ سفارت کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو کابل کے ساتھ امن مذاکرات میں شرکت پر آمادہ کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔