1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن عمل کی سربراہی کابل حکومت کے پاس ہونی چاہیے، سرتاج عزیز

عدنان اسحاق21 جولائی 2013

تعلقات میں بہتری اور امن عمل کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے اسلام آباد حکومت کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز افغانستان میں ہیں۔ اپنے دورے کے دوران وہ افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کریں گے۔

https://p.dw.com/p/19BQF
تصویر: picture-alliance/dpa

سرتاج عزیز نے کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ خلوص، نیک نیتی اور خیر سگالی کا پیغام لے کر افغانستان آئے ہیں۔’’ پاکستان افغانستان میں جاری قومی مفاہمتی عمل کی حمایت کے لیے علاقائی سطح پر کوششیں کرےگا۔ پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بھی یہی کہے گا کہ وہ بھی مداخلت اور کسی ایک گروپ کی حمایت کی پالیسی اختیار نہ کریں‘‘۔سرتاج عزیز کے بقول ان کے اس دورے کا ایک اہم مقصد وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صدر حامد کرزئی کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینا ہے۔ مئی میں نواز شریف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے کسی سینئر عہدیدار کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔

Afghanistan Konferenz London
پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے ایک نئے باب کی امید ہےتصویر: AP

اس پریس کانفرنس میں افغان وزیر خارجہ زلمے رسول بھی موجود تھے۔ انہوں نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کی امید ظاہر کی۔ ’’ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ امن مذاکرات افغان قیادت کی نگرانی میں ہونے چاہیں۔ ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں افغان آئین کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں ہمیں پاکستان کی حمایت درکار ہے‘‘۔

اس وقت امریکی سربراہی میں تقریباً ایک لاکھ غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ اگلے سال اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد یہ فوجی افغانستان چھوڑ دیں گے۔ حامد کرزئی دو مرتبہ صدر رہنے کے بعد قانونی طور پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس حوالے سے سرتاج عزیز نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ افغانستان یہ دونوں سنگ میل بہتر انداز میں عبور کر لے گا۔’’ پاکستان افغانستان میں امن اور مفاہمت کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا اور ہمارا خیال ہے کہ امن عمل کی سربراہی بھی افغان حکام کے پاس ہونی چاہیے‘‘۔ افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ پر امن ، مستحکم اور متحد افغانستان پاکستان کے حق میں ہے۔

ابھی گزشتہ ہفتے ہی کرزئی کے چیف آف سٹاف کریم خرم نے بیان دیا تھا کہ قطر میں طالبان کے دفتر کا قیام افغانستان کو تقسیم کرنے کی ایک سازش تھی۔ ان کے بقول اس سازش میں پاکستان اور امریکا شامل ہیں۔ اس کے جواب میں سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امن کے قیام کے لیے بنائی گئی اعلیٰ افغان کونسل کے کہنے پر دوحہ میں دفتر کھولنے کے لیے طالبان کو ایک راستہ فراہم کیا تھا۔ ان کے بقول ماضی کی وجہ سے پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن پاکستان انہیں کنٹرول نہیں کرتا۔

پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں گزشتہ کئی برسوں سے اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر سرحدی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کرتے رہتے ہیں۔