امن فوجی مشن: کتنے کامیاب، کتنے ناکام؟
2 اکتوبر 2009اس وقت دنیا کے مختلف خطّوں میں تقریباً 350 تنازعات ہیں، جن میں سے کئی ایک خونریز ہیں، جس کی مناسبت سے اس مرتبہ ’انٹرنیشنل پیس ڈے‘ کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے تشّدد کے خاتمے سے متعلق اپنے خطاب میں یہ پیغام دیا:’’اس عالمی یوم دن کے موقع پر سب کے لئے میرا ایک پیغام ہے۔ ہمیں غیر مسلح ہونا چاہیے اور امن قائم کرنا چاہیے۔ میں دنیا بھر کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس کوشش میں ہمارا ساتھ دیں۔‘‘
نئی دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ’اسکول آف انٹرنیشنل اسٹیڈیز‘ سے وابستہ پروفیسر کلیم بہادر کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے امن فوجی مشن مجموعی طور پر کامیاب ہوئے ہیں تاہم بعض خطّوں میں ان کی اہمیت کچھ خاص نہیں رہی ہے۔’’کوسووو جیسے معاملات میں اقوام متحدہ کے امن فوجی مشن پر کئی سوالات بھی اٹھے کہ کہیں اس کے پیچھے مغربی ملکوں کا کوئی ایجنڈہ تو نہیں تھا۔ لیکن میری رائے میں امن فوجی مشن مجموعی طور پر کامیاب رہے ہیں۔ دس کے اسکیل پر میں ان کو نو نمبر دوں گا۔‘‘
بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام منقسم کشمیر کے دونوں حصّوں میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی طویل عرصے سے موجودگی کے بارے میں کلیم بہادر مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اس معاملے میں اقوام متحدہ نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔‘‘
ڈوئچے ویلے اُردو سروس کے ساتھ بات چیت میں کلیم بہادر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ’پیس مشنز‘ کا کام در اصل جنگ یا بحران کے خاتمے کے بعد امن کے قیام میں مدد دینی ہوتی ہے۔ کلیم بہادر نے مزید کہا کہ امن فوجی مشن کا کام ہرگز آسان نہیں ہوتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ، بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازعے پر اختلافات، عراق اور افغان جنگیں، سوڈان میں دارفور بحران، صومالیہ میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام، جارجیا اور روس کے درمیان علٰیحدگی پسند خطّوں جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ کے سرحدی مسئلوں پر کھینچا تانی اور اس کے علاہ بھی بہت سارے ملکوں کے درمیان سرحدی اور دیگر تنازعات جاری ہیں۔
اقوام متحدہ بحران زدہ خطّوں میں اپنے فوجی مشن بنیادی طور پر کس لئے بھیجتا ہے؟ اور اس کا پہلا مشن کب اور کہاں روانہ ہوا؟
بات ہے سن 1948ء کی جب اقوام متحدہ نے اپنا پہلا امن مشن قائم کیا اور سلامتی کونسل نے مشرق وسطیٰ میں فوجی مبصرین کی تعیناتی کی منظوری دی۔ اس مشن کا کام اسرائیل اور عرب ملکوں کے مابین اس وقت طے پائے جانے والے معاہدے پر نظر رکھنا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک دنیا کے مختلف ملکوں میں ساٹھ سے زائد امن فوجی مشن روانہ کئے جاچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کا بنیادی طور پر کام یہ ہوتا ہے کہ بحران کے شکار ملکوں کی مدد کی جائے تاکہ پائیدار امن کے لئے راہ ہموار کی جاسکے۔ اس وقت سوڈان اور صومالیہ جیسے افریقی ملکوں میں بھی اقوام متحدہ کے امن فوجی تعینات ہیں۔صومالیہ میں اس وقت افریقی یونین کے تقریباً پانچ ہزار امن فوجی دستے تعینات ہیں۔
جرمنی کی ہائيڈل برگ يونيورسٹی کا عالمی تنازعات کی تحقيق کا انسٹی ٹيوٹ سن 2002ء سے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے۔ اس انسٹی ٹيوٹ کے مطابق گزشتہ برس عالمی تنازعات اتنے زيادہ تھے کہ اس سے پہلے کبھی نہيں تھے۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے اس ادارے کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنيا ميں طاقت کا استعمال سن 2007ء کے مقابلے ميں سن 2008ء ميں واضح طور پر بڑھ گيا۔ انتہائی پُر تشدد تنازعات کی تعداد 32 سے بڑھ کر 39 ہو گئی، ان 39 تنازعات ميں سے 9 جنگيں تھيں جبکہ 95 کا درجہ بحرانوں کا تھا۔ بقيہ 211 تنازعات ميں طاقت کا استعمال نہيں کيا گيا۔
تنازعات کا سب سے زيادہ شکار اب بھی براعظم افريقہ ہی ہے۔ ہائيڈل برگ کے تنازعات پر تحقيق کے انسٹی ٹيوٹ نے سن 2008ء ميں افريقہ ميں بارہ انتہائی پُر تشدد تنازعات شمار کئے، جن ميں تين نئی چھڑنے والی جنگيں بھی شامل تھيں۔ ان بارہ ميں سے کوئی بھی تنازعہ ابھی تک ختم نہيں کيا جا سکا ہے۔ يہ تنازعات دوسرے علاقوں کے علاوہ سوڈان، ايتھوپيا، مالی،کانگو،صوماليہ، چاڈ اور نائيجر ميں بھی جاری ہيں۔
ايشيا، علاقائی تنازعات کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ايران، عراق، سری لنکا، پاکستان، بھارت، اسرائيل، فلسطين اور ترکی ميں طاقت کے استعمال والے تنازعات جاری ہيں اور سن2009ء ميں افغانستان کی جنگ ميں بہت زيادہ شدت پيدا ہو چکی ہے۔
براعظم امريکہ میں برسوں سے جاری کولمبيا کے پرتشدد تنازعے کے علاوہ گزشتہ ایک سال ميں ميکسيکو ميں منشيات کا کاروبار کرنے والے گروہوں اور پوليس کے درميان خانہ جنگی سے مشابہ تنازعہ جاری ہے۔
تنازعات کے حوالے سے يورپ کی خبريں مثبت ہيں۔گزشتہ سال اگست ميں جارجيا سے علٰیحدہ ہونے والے صوبوں ابخازيہ اور جنوبی اوسيتيا پر جارجيا اور روس ميں جنگ کے بعد اب صورتحال کم ازکم کشيدہ نہيں ہے اور ايک سياسی حل کےبارے ميں بات چيت جاری ہے۔
تحریر: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: عدنان اسحاق