امن مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکی عہدیداروں کا دورہ مشرق وسطٰی
13 ستمبر 2011امریکہ کے مشرق وسطٰی کے لیے ایلچی ڈیوڈ ہیل اور وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر اہلکار ڈینس راس کا دورہ دونوں فریقوں کے درمیان مذاکراتی عمل کو شروع کرانے کی ایک کوشش ہے۔
امریکہ کی طرف سے ان کوششوں میں تیزی کا مقصد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک درخواست کو روکنا ہے جس کے ذریعے وہ 19 ستمبر کو شروع ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں مکمل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ فلسطین کی اس کوشش سے براہ راست امن مذاکرات کی کوششوں کا عمل مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گزشتہ سال امن مذاکرات اس وقت معطل ہو گئے تھے جب اسرائیل نے اس زمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر پر دس ماہ سے عائد پابندی ختم کر دی تھی جسے فلسطینی اپنی الگ ریاست کے قیام کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔
اسرائیل اِس فلسطینی کوشش کے خلاف لابی کر رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مقصد اسے بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی جانب دھکیلنا اور اس کے اقدامات کو غیر قانونی قرار دلوانے کے ساتھ ساتھ تنازعے کو نئے مقامات تک توسیع دینا ہے جن میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کا دائرہ کار بھی شامل ہے۔
فلسطینیوں کو اس وقت اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہے اور وہ ووٹ نہیں دے سکتے۔ مکمل رکن بننے کے لیے ان کی درخواست اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس جائے گی جہاں امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسے ویٹو کر دے گا۔
امریکہ اور اسرائیل کی یہ دلیل ہے کہ فلسطینی ریاست کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں جانے کی بجائے دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ بات واضح نہیں کہ آئندہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔
فلسطینی انتظامیہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر مشتمل فلسطینی ریاست کے لیے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی بجائے ’غیر رکن ریاست‘ کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے جس کے لیے 193اراکین پر مشتمل اسمبلی کی سادہ اکثریت درکا ر ہے۔
تاہم امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اس ماڈل کی حمایت نہیں کرے گا۔
دفتر خارجہ کی ترجمان خاتون وکٹوریہ نولینڈ نے پیر کو کہا، ’’ہمارا نکتہ نظر یہ ہے کہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن انداز میں رہنے والی ایک مستحکم اور محفوظ ریاست کا قیام سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی کی بجائے صرف مذاکرات میں مضمر ہے۔‘‘
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی