امن کا قیام، مذاہب کے مابین مکالمت کے ذریعے
11 ستمبر 2022
''بین المذاہبی کام اختیاری نہیں بلکہ لازمی ہے۔‘‘ ان طرح کے کاموں کے ذریعے ہر طرح کے امتیازی سلوک کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا ہے ایک مصری نژاد ماہر تعلیم و بین المذاہبی امور عزہ کرم کا جو 2019 ء سے'ریلیجنز فار پیس‘ یا RFP نامی غیر حکومتی تنظیم کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔
عزہ کرم ایک عرصے سے امریکہ میں آباد ہیں۔ انہوں نے مختلف مذاہب کے مابین مشترکہ عزائم کو فروغ دینے پر زور دیا۔
چرچ کا اجتماع
جنوب مغربی جرمن شہر کارلسروہے میں منعقدہ کلیساؤں کی عالمی کونسل کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عزہ کرم نے بین المذاہبی تعاون کی مزید مؤثر مہم چلانے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی راکٹ سائنس کی بات نہیں کر رہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'ریلیجنز فار پیس‘ نامی تنظیم عالمی مذاہب کی کونسل کی شراکت دار بننے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح کثیرالمذہبی ماحول کو فروغ دینے اور اسے مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
گزشتہ جمعرات یعنی آٹھ ستمبر تک دنیا کے طول و عرض میں قائم 350 کلیساؤں کے ساڑھے تین ہزار نمائندے جرمن شہر کارلسروہے میں بین المذاہبی مکالمت کے موضوع پر اس تقریب میں حصہ لینے کے لیے جمع ہوئے۔ جائے تقریب ازخود ایک چھوٹی سی دنیا دکھائی دیتی تھی۔ لمبی داڑھیوں اور روایتی لباس والے آرتھوڈوکس چرچ کے پادری، ریفارمیشن کے گرجا گھروں کے پادری، اوشیانا یا ایمیزون کے مقامی چرچ کے نمائندے اور خواتین پادری سب ایک جگہ جمع ہوئے۔
سکھ اور مسلمان کیسے قریب آ گئے؟
عالمی گرجا گھروں نے یہ انجمن 1948ء میں ایمسٹرڈم نیدرلینڈز میں قائم کی تھی جبکہ 'ریلیجنز فار پیس‘ یا 'مذاہب برائے امن‘ نامی این جی او 1970ء میں جاپانی شہر کیوٹو میں قائم کی گئی تھی، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی کثیرالمذہبی غیر سرکاری تنظیم قرار دیتی ہے۔ اس تنظیم کی 90 قومی اور چھ علاقائی کونسلیں ہیں، مثال کے طور پر اس کی ایشیا اور یورپ میں قائم شاخیں بھی۔
گزشتہ 25 سالوں میں مذاہب کے مابین مکالمت کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر امریکہ پر 11 ستمبر 2001 ء یا نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے مکالمت کے اس سلسلے میں اور تیزی آئی ہے۔ کارلسروہے میں بھی ایشیا اور افریقہ کے کلیساؤں کے نمائندے دنیا کے مذہبی رجحانات والے علاقوں میں مذہبی یکجہتی کے عروج کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تشدد اور نفرت کی لہر کے شکار افریقی ملک نائجیریا میں بھی مذہبی ہم آہنگی اور روا داری کے فروغ کے لیے مختلف مذاہب کے نمائندوں کی کوششوں کی مثال بھی سامنے رکھی گئی۔
RFP جرمنی کی سربراہ الزبتھ ناؤراتھ نے کارلسروہے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''کثیرالنسلی معاشروں میں بین المذاہبی مکالمہ بہت اہم ہے۔ ہر جگہ ہم دوسری قوموں، ثقافتوں، مذاہب کے لوگوں سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی امن کے لیے یہ اتنا ضروری ہے کہ ہمیں چھوٹی عمر سے ہی بین المذاہبی سوچ کا حامل ہونا سیکھنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کو جاننے اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ بات چیت کے قابل ہونا بھی ہم سب کے لیے نہایت ضروری ہے۔‘‘ اس میں تکثیریت کی صلاحیت بھی شامل ہے، یعنی لوگوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا اور ایک دوسرے کے مذہب، نظریے اور ثقافت کو تسلیم کرنا اور اس کے لیے کشادہ دل ہونا بھی غیر معمولی اہمیت کی بات ہے۔
آذربائیجان مذہبی ہم آہنگی کی جانب کیسے بڑھا؟
اسکولوں کی سطح سے ہی تربیت لازمی
الزبتھ ناؤراتھ تمام عالمی اور بین الاقوامی تقریبات میں بین المذاہبی نقطہ نظر کو فروغ دینے کی بھرپور کوششیں کرتی ہیں، خاص طور پر ایسے تمام پروگراموں میں، جن میں کلیسا بھی بھرپور طریقے سے حصہ لے سکیں۔ ان کے مطابق بین المذاہبی تعلیم اس سطح سے ہی شروع ہونا چاہیے۔ وہ خود جرمنی کی آؤگسبرگ یونیورسٹی میں مذہبی علوم کے ماہرین اور اساتذہ کے لیے ایک جامع کورس کی پیشکش بھی کر چکی ہیں۔ اس کورس کا عنوان 'بین المذاہبی ثالثی‘ رکھا گیا۔
نئے ابھرنے والے اور خواہش مند اساتذہ، مسیحی، یہودی اور مسلمان، سب نے وہاں سیکھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام اور روا داری کے ساتھ کیسے بات کی جائے۔ انہیں یہ تربیت بھی دی گئی کہ جو کچھ انہوں نے سیکھا ہے، اسے اسکول کی سطح تک کیسے پہنچایا جا سکتا ہے۔ RFP جرمنی کی سربراہ الزبتھ ناؤراتھ کہتی ہیں، ''میرا وژن یہ ہے کہ اس علم کو بچوں تک پہنچایا جائے، انہیں مکالمت میں حصہ لینے اور مشغول ہونے کے لیے شعور دیا جائے اور ان کو یہ صلاحیت بھی دی جائے اور بتایا جائے کہ کیسے وہ دوسروں کو اپنا دشمن سمجھنے اور دوسروں کے بارے میں عامیانہ خیالات کے پرچار سے باز رہ سکتے ہیں۔‘‘
ک م / م م (کرسٹوف اشٹراک)