اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ، ہیپاٹائٹس
28 جولائی 2014پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں صرف ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ہی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس، دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس بیماری کے باعث سالانہ قریب 1.4 ملین افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کا مرض بنیادی طور پر سوزش جگر کہلاتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کی پانچ اقسام ہیں۔ یعنی اے، بی، سی ، ڈی اور ای۔ ان میں سے ہیپاٹائٹس بی اور سی کو ’خاموش قاتل‘ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کا مریض کو عموماً اس وقت ہی علم ہوتا ہے جب یا تو وہ ان کے ٹیسٹ کروا لے یا پھر اس کا جگر خطرناک حد تک خراب ہو جائے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے اور ای اقسام کے انفیکشن متعدی ہیں جو عموماً پینے کےگندے پانی یا ناقص نکاسیء آب کے باعث پھیلتا ہے لیکن بی اور سی کی زیادہ تر وجوہات میں غیر محفوظ انتقال خون، انجیکشن کے لیے ایک ہی سرنج کا بار بار استعمال، حجام یا دندان ساز کے جراثیم سے آلودہ اوزار اور متاثرہ شخص سے جنسی تعلق بھی شامل ہیں جبکہ کسی متاثرہ ماں سے یہ مرض اس کے نومولود بچے کو بھی منتقل ہو سکتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مرزا علی کے مطابق اگر کسی شخص میں اس مرض کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا آپ کو اس بیماری کے ہونے کا خدشہ ہے تو پھر ضروری ہے کہ فوری طور پر ہیپاٹائٹس بی اور سی کے لیے اپنا ٹیسٹ کروائیں، ”ہیپاٹائٹس اے کی علامات میں بھوک لگنا کم ہو جائے گی، منہ کا ذائقہ تبدیل ہو جائے گا، جسم میں تھکاوٹ محسوس ہو گی، گھبراہٹ محسوس ہو گی، کمزوری بھی محسوس ہو گی، کھانے کی جانب رغبت نہیں ہو گی، کھانے کی خوشبو آئے گی تو وہ بری لگے گی، جو سگریٹ نوشی کرتے ہیں انہیں سگریٹ کا ذائقہ برا محسوس ہو گا، آنکھیں پیلی ہونا شروع ہو جائیں گی اور جسم کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جائے گا۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی علامات بہت آہستگی سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن جب ہیپاٹائٹس بی مستقل مرحلے میں آ جائے گا تو نہایت ہی شدید قسم کا یرقان ہو گا۔‘‘
ڈاکٹر مرزا علی کے مطابق اس وقت پاکستان میں ہیپاٹائٹس اے اور ای کی ویکسینیشن دستیاب ہے تاہم ہیپاٹائٹس بی اور سی کے حوالے سے صورتحال پریشان کن ہے، ”ہیپاٹائٹس اے کی ویکسینیشن مارکیٹ میں دستیاب ہے جو زیادہ مہنگی نہیں ہے تاہم ہم بی اور سی قسم کے ہیپاٹائٹس کے باعث پریشان ہیں۔ خاص طور سے سی کے حوالے سے کیونکہ اس کا علاج کافی مہنگا ہے۔ یعنی اگر کسی کو ہیپاٹائٹس سی ہو جاتا ہے اور وہ اس کے علاج کے لیے انجیکشن لگاتے ہیں تو کم از کم چار سے پانچ لاکھ روپے فی مریض اخراجات آتے ہیں۔ اس لیے جو مریض یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ان کا علاج نہیں ہو پاتا اور یہاں ایسے فلاحی ادارے نہیں ہیں جو ہیپاٹائٹس سی کے ایسے مریضوں کا مکمل علاج کرا سکیں۔ تو اس لیے یہ کافی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔“
ڈاکٹر مرزا کے مطابق پاکستان بھر میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اکثر لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ تاہم ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام سندھ، کے ڈپٹی پروگرام منیجر ڈاکٹر علی اکبر کے مطابق صرف صوبہ سندھ میں ہی ہیپاٹائٹس کے تیس لاکھ مریض ہیں، ”پاکستان میڈیکل ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق سندھ میں ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام سے متاثر تقریباً تیس لاکھ افراد موجود ہیں۔ سندھ میں پیپاٹائٹس سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں بالائی سندھ کے علاقے ہیں جن میں سکھر، لاڑکانہ، قمبر اور شہداد کوٹ شامل ہیں۔“
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور بچاؤ کے لیے خصوصی پروگرام شروع کر رکھا ہے جسے ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ پروگرام 2008 سے جاری ہے۔ ڈاکٹر علی اکبر کے مطابق اس پروگرام کے تحت سندھ بھر میں 64 مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں ہیپاٹائٹس کا علاج اور ویکسینیشن کی جاتی ہے، ”یہاں علاج کے دو مراحل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ہیپاٹائٹس سے متاثر ہے تو اسے 72انجیکشن لگتے ہیں چھ ماہ میں۔ اس کے بعد بھی اگر مریض میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی تو چھ مہینوں کا ایک اور کورس کرایا جاتا ہے، جس میں اسے 24 انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔ یہ کورس ایک سال تک چلتا ہے۔ جن لوگوں کی اسکریننگ کے بعد پتا چلتا ہے کہ انہیں ہیپاٹائٹس نہیں ہے تو ہم ان کو ایک ویکسین کے تین ڈوز لگاتے ہیں جس سے وہ پانچ سال کے لیے ہیپاٹائٹس سے محفوظ رہتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ افراد ہیپاٹائٹس بی اور اسی لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی کے وائرس سے متاثر ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس ڈی عام طور پر صوبہ بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے بعض علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ہر سال عوام کو اس مرض سے آگاہ کرنے اور اس سے بچاؤ پر زور دینے کے لیے کئی مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود اس پر قابو پانے میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ ڈاکٹر علی اکبر کے مطابق اس کی ایک وجہ عوام کی جانب سے اس مرض سے بچاؤ کے لیے کوششوں کی کمی ہے۔