امیر ملک جرمنی میں دو ملین غریب بچے
12 ستمبر 2016ماہرین اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ، جرمنی غربت کے شکار ان دو ملین بچوں کی پائیدار اور ٹھوس پرورش کس طرح کر سکتا ہے؟ جرمنی میں ضروریات زندگی، مثال کے طور پر غذا کی کوئی قلت نہیں پائی جاتی نہ ہی یہاں ادویات اور سردیوں میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے لباس کی کوئی کمی ہے۔ یورپ کی اس سب سے بڑی اقتصادی قوت میں عام طور پر تمام بچوں کو اسکول کی تعلیم کی سہولیات بھی میسر ہیں۔ جرمن دارالحکومت برلن اور جنوبی جرمن صوبے باویریا کے غریب بچوں تک کو وہ مراعات اور سہولیات میسر ہیں جو دنیا بھر میں پائے جانے والے بچوں کی اکثریت جو تقریباً 2 بلین بنتی ہے، کے نصیب میں نہیں ہیں۔
برٹلسمن فاؤنڈیشن کی طرف سے شائع ہونے والی اس تازہ رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ جرمنی بحیثیت ایک ترقی یافتہ ریاست مزید ثروت مندی کی طرف گامزن ہے لیکن یہاں بچوں میں غربت بڑھ رہی ہے۔ اس مطالعاتی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں اس وقت ایسے بچوں کی تعداد قریب دو ملین ہے جو سوشل بینیفٹ یا سماجی امداد پر گزارا کرنے والے گھرانوں میں پروان چڑھ رہے ہیں اور ان فیملیز کو کم از کم گزشتہ پانچ برسوں سے سماجی مراعات اور سوشل فینیفٹ کے بجٹ سے امدادی رقوم فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں ریاست کی طرف سے غریب خاندانوں کو دی جانے والی اس مالی امداد کو ’Hartz IV ‘ کہا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنے والے والدین کو غریب تصور کیا جاتا ہے۔ محققین نے یہ اعداد و شمار جرمنی کے وفاقی ادارہ برائے روزگار سے حاصل کیے ہیں۔ سماجی امور پر نظر رکھنے اور سماجی مسائل پر تحقیق کرنے والوں نے جرمن بچوں اور نوجوانوں پر غربت کے اثرات کے بارے میں ایک طویل عرصے تک مطالعہ کیا۔
ان محققین کا کہنا ہے کہ جرمنی میں غربت کے شکار بچوں کو تازہ تیار کردہ غذا کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب وہ کم خوراکی کا شکار ہیں اور ان پر بیماریاں بہت جلدی حملہ آور ہوتی ہیں۔ اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غریب گھرانوں کے بچے زیادہ تر سماجی طور پر تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین دیگر بچوں کی طرح اپنے بچوں کو اسکول کی طرف سے تفریحی سفر پر نہیں بھیج سکتے نہ ہی انہیں میوزک کی کلاس یا اسپورٹس کے گھنٹوں میں شرکت کے لیے رجسٹر کرواتے ہیں کیونکہ ان سب کے لیے والدین کو علیحدہ سے فیس جمع کرانا پڑتی ہے۔ غریب گھرانوں کے بچوں کے پاس اکثر کوئی علیحدہ کمرہ نہیں ہوتا جہاں وہ اپنی مرضی سے کھیل کوُد سکیں اور اپنا ہوم ورک سکون کے ساتھ کر سکیں۔ ان سب چیزوں کے منفی اثرات ان بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر پڑتے ہیں۔
بچوں کی پرورش اور تعلیم کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ وہ کس جرمن شہر میں پروان چڑھتے ہیں اور انہیں کون کون سی سہولیات میسر ہیں۔ جرمنی کا جنوبی صوبہ باویریا ثروت مندی کے اعتبار سے کافی اوپر ہے۔ وہاں بچوں کا رہن سہن اور ان کا معیار زندگی جرمنی کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے بچوں سے کہیں بلند ہے کیونکہ اس صوبے میں معاشی اعتبار سے کمزور باشندوں کی شرح کافی زیادہ ہے۔ مشرقی جرمنی میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ غربت کا شکار ہے۔ دارالحکومت برلن میں ہر تین میں سے ایک بچہ غربت میں پل رہا ہے جبکہ جرمن صوبے باڈن وؤٹنبرگ اور باویریا میں بچے آسودہ گھرانوں میں آنکھ کھولتے ہیں۔