انتخابات 2013: پاکستانی نوجوان اور دہشت گردی کی لہر
3 مئی 2013پاک ووٹس سٹیزن جرنلسٹس کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ جس کے ذریعے انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں، انتخابی سرگرمیوں اور ملک بھر انتخابات کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات کی رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ پاک ووٹس کے اعداد شمار کے مطابق اب تک انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی ریلیوں، کارنرمیٹنگز اور سیاسی جلسوں میں ہونے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے التوا کے حوالے سے خدشات فروغ پا رہے ہیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد رواں انتخابات میں پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کرے گی۔ آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے نوجوان مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ چارسدہ کے 22 سالہ وقاص احمد کہتے ہیں، ’’میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جس کی باچا خان کے دور سے ہی اے این پی سے سیاسی وابستگی قائم ہے، تاہم میں اپنا فیصلہ کرنے کے حوالے سے آزاد ہوں اور اس وقت مختلف پارٹیوں کے منشور کا جائزہ لے رہا ہوں تاکہ ووٹ کا درست استعمال کرسکوں۔‘‘
وقاص احمد خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر اے این پی کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والی دہشت گردی کے واقعات سے خوف زدہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری خواہش ہے کہ میرے شہر میں بھی جلسے ہوں، انقلابی شعر پڑھے جائیں لیکن میں اب تک ایسے کسی جلسے میں شرکت نہیں کرسکا۔ اگرچہ کچھ پارٹیوں کے جلسے وغیرہ ہوئے ہیں لیکن وہ سب چاردیواری کے اندر منعقد ہوئے اوردہشت گردی کا خوف بہت زیادہ تھا۔ میں اب تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ دہشت گرد سیاست دانوں کے کیوں کر درپے ہوگئے ہیں، اور ان کے کیا مفادات ہیں؟‘‘
نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی طالبہ غفرانہ نقوی حالیہ انتخابات کے بارے میں اپنی خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں، ’’اس بار انتخابات میں ایک نئی سیاسی قوت حصہ لے رہی ہے جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ لہذا میں پاکستان تحریک انصاف کو بہتر سیاسی جماعت تصور کرتی ہوں۔‘‘ غفرانہ نقوی کا مزید کہنا ہے کہ ان کا ووٹ خان پور میں رجسٹرڈ ہے اورامن و امان کے مخدوش حالات کے باوجود میں کسی خوف کے بغیر اپنے آبائی شہر میں ووٹ ڈالنے ضرور جائیں گی۔
پشاور میں مقیم شہربانو فیاض کا آئندہ انتخابات کے بارے میں کہنا ہے، ’’مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات پر شوبز کا رنگ غالب آگیا ہے۔ کس کے پاس زیادہ سلیبرٹیز ہیں، کس جماعت کے ساؤنڈ ٹریک زیادہ بہتر ہیں اور کسی کے سوشل میڈیا پر مداحوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سے قبل سیاست کو ہمیشہ ایک گندا کھیل سمجھا جاتارہا ہے۔‘‘ شہربانو فیاض دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے کہتی ہیں، ’’ایسا نہیں کہ ملک کا کوئی مخصوص حصہ دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہو اور ہم اس جگہ سے کسی پرامن مقام پر منتقل ہو جائیں، بدقسمتی سے پورا ملک ہی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کا ووٹ جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھا میں رجسٹرڈ ہے اور وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہتی ہیں لیکن جنوبی وزیرستان میں کشیدہ حالات کے باعث وہ حق رائے دہی سے محروم رہیں گی۔
عرشیہ خالد اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کر رہی ہیں اور ان کا ووٹ ان کے آبائی شہر گوجرانوالہ میں رجسٹرڈ ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’میرے نزدیک آئندہ انتخابات ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں کسی جماعت کو ووٹ نہیں ڈال رہی۔ کیونکہ جمہوریت نے ہمیں کچھ دیا اور نہ آمریت نے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’عوام دہشت گردی کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب شاید کسی کا اس جانب دھیان بھی نہیں جاتا۔‘‘
راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے سید روڈ کے ایک دکان دار محمد نعیم کا کہنا ہے، ’’ انتخابات کا وقت پر انعقاد انتہائی اہم ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کا گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھ پر آنا ہی سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔ صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ انتخابات امن و امان سے گزر جائیں کیونکہ بظاہر کسی سیاسی جماعت کو ملک کے حالات بہتر بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
اشیش اشوک کا تعلق راولپنڈی کی ہندو برادری سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو بہتر سیاسی جماعت سمجھتے ہیں اور وہ پہلی بار اپنا حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
رپورٹ: شیراز حسن، اسلام آباد
ادارت: افسر اعوان