انتخابات 2024ء: پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں فاتح کون ہو گا؟
25 جنوری 2024پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مسائل جتنے گھمبیر ہیں اتنی ہی اس شہر کی سیاست بھی۔ 2024ء کے انتخابات میں چار جماعتیں شہر کی سیاست میں فعال دکھائی دے رہی ہیں۔ تین دھڑوں میں بٹی ہوئی ایم کیو ایم اب متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ ایم کیو ایم لندن اور پی ٹی آئی زیر عتاب ہیں اور آزادانہ کام نہیں کر پا رہیں۔
پیپلز پارٹی پہلی مرتبہ اس شہر میں اپنا میئر منتخب کروانے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ کراچی کے باسی اس مرتبہ بھی پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ جماعت اسلامی گزشتہ چند سالوں کے دوران کراچی کے مسائل کے حل کے لیے خاصی سرگرم رہی ہے اور اس سلسے میں حافظ نعیم ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
تبدیلی کے آثار کم
تاہم کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار اس مرتبہ بھی شہر کے انتخابی رجحانات میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کر رہے۔ روزنامہ جنگ کے سابق ايڈیٹر اور تجزیہ نگار محمود شام نے ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ميں انتخابی سرگرمياں تاخير سے شروع ہوئيں اور لوگوں ميں جوش خروش کم ہے، ”شہر کا مينڈيٹ تقسيم ہو گا کوئی ايک جماعت اکثريت کا دعویٰ نہيں کر سکے گی۔ پيپلز پارٹی اور ايم کيو ايم پاکستان پہلے سے بہتر پوزيشن ميں ہوں گی مگر پی ٹی آئی کے لیے مشکلات بڑھيں گی۔‘‘
کراچی میں مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 22 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 47 نشستیں ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
'کراچی پیپلز پارٹی کا ہے'
پيپلز پارٹی کے رہنما سعيد غنی کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت کی کارکردگی اور شہر ميں جاری ترقياتی منصوبوں کی وجہ سے شہری پی پی پی کو ووٹ ضرور ديں گے۔ ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے سعيد غنی نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ايم کيو ايم پاکستان اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لیے ان کی جماعت پر جھوٹے الزامات لگا رہی ہيں، ''پيپلز پارٹی ان انتخابات ميں کراچی سے قومی اسمبلی کی 13 اور صوبائی کی 28 نشستيں حاصل کر کے چوتھی مرتبہ حکومت بنائے گی۔‘‘
کراچی کے مشہور ترین حلقوں میں سے ایک لیاری کا حلقہ ہے۔ لیاری سے قومی اسمبلی کی نشست پر جہاں کبھی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور پھر ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو انتخابات میں حصہ لیا کرتے تھے، وہاں 2018 میں بلاول بھٹو کی پی ٹی آئی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست کے بعد اب نبیل گبول کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا ہے۔
کراچی کی قسمت بدل دیں گے، مصطفیٰ کمال
ايم کيو ايم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت 2018ء ميں چھينا گيا ووٹ بینک دوبارہ حاصل کرنے ميں کامياب ہو جائے گے۔ ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے شہر کی بربادی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا ذمہ دار پيپلز پارٹی اور تحريک انصاف کو قرار ديا۔ انہوں نے عوام سے اپيل کی کہ ايک مرتبہ ان کی جماعت کو صوبے کی حکومت بنانے کا موقع ديں وہ قسمت بدل ديں گے۔
واضح رہے کہ ايم کيو ايم پاکستان، ماضی ميں پيپلز پارٹی اور تحريک انصاف دونوں کی اتحادی رہی، مگر کراچی شہر کے مسائل حل ہونے کے بجائے گھمبير ہوتے چلے گئے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ايم کيو ايم پاکستان ميں قيادت کا فقدان ہے۔
'لندن فیکٹر'
اگر ايم کيو ايم لندن کے قائد الطاف حسين کو سياست ميں فعال ہونے کی اجازت مل جاتی ہے تو کراچی شہر کی سياست کا رخ تبديل ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم لندن کے رہنما الطاف حسین اپنے حالیہ پیغامات میں ایم کیو ایم پر پاکستان پر سنگین الزامات عائد کر رہے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مہاجروں سے غداری کر رہی ہے اور اس جماعت کو ووٹ نہ دیا جائے۔تجزیہ کار محمود شام کے مطابق کراچی میں الطاف حسين کا اثر رسوخ اب بھی بہت زیادہ ہے۔ان کے بقول اگر الطاف حسین نے اس مرتبہ بھی بائيکاٹ کا اعلان کر ديا تو ایم کیو ایم پاکستان کو اس کا نقصان ہو گا جبکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو پہنچ سکتا ہے۔
مساوی مواقعوں کا فقدان
اس مرتبہ فرق صرف یہ ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں ملک بھر اور کراچی شہر میں ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار پہلے الیکشن کمیشن اور پھر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں اپنے انتخابی نشان 'بلے‘ سے محروم ہونے کے بعد اب آزاد امیدواروں کی حیثیت سے اس انتخابی دنگل میں حصہ لے رہے ہیں۔
محمودشام کے بقول 2018ء ميں پی ٹی آئی نے دراصل ايم کيو ایم پاکستان کے ووٹ بینک کو متاثر کيا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آٹھ فروری کو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدواروں کو آزادی سے کام کرنے میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تحريک انصاف سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اميدوار خرم شير زمان نے بھی محمود شام کے اس خدشے کی تصدیق کی۔ انہوں نے ڈوئچے ويلے کو بتايا کہ انتظاميہ تحريک انصاف کے کارکنوں کو نہ انتخابی مہم چلانے اور نہ بينر یا پوسٹر لگانے کی اجازت دے رہی ہے، ''شہر بھر ميں کے ايم سی کا عملہ صرف پی ٹی آئی کے بينر، پوسٹر اور پرچموں کو اتار رہا ہے۔‘‘
خرم شير زمان نے کہا کہ ايم کيو ايم پاکستان اور پيپلز پارٹی کو کراچی کے عوام سخت ناپسند کرتے ہيں۔ ان کے بقول اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائيں تو پی ٹی آئی پورے ملک ميں دو تھائی اکثريت سے کامياب ہو گی۔
'حل صرف جماعت اسلامی'
کراچی شہر میں جماعت اسلامی ہر انتخابات میں موجود رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے شہر کے مسائل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور وہ انتظامیہ پر ان مسائل کو حل کرنے کے مسلسل دباؤ ڈالتے رہے۔ تاہم تجزیہ کار محمود شام کے بقول جماعت اسلامی شہری مسائل کو سمجھنے والی ايک موثر آواز ہے، جس ميں حافظ نعيم الرحمن کا بڑا کردار ہے، مگر بدقسمتی سے عوام ووٹ ديتے وقت جماعت اسلامی کی خدمات کو فراموش کر ديتے ہيں۔
حافظ نعيم الرحمن شہر کے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے اميدوار ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ويلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ شہر کے مسائل کو سمجھنے والے حقيقی نمائندے ہيں، ''اگر پيپلز پارٹی اور ايم کيو ايم پاکستان، غنڈہ گردی اور ہٹ دھرمی ترک کر ديں تو انہيں بھی جماعت اسلامی کی کارکردگی نظر آنے لگے گی۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کراچی کے تمام مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 15 سالوں سے صوبے ميں برسرے اقتدار پيپلز پارٹی نے لوٹ مار اور کرپشن کا بازار گرم رکھا، جس کی وجہ سے کراچی کھنڈرات ميں تبديل ہو گيا۔ 2024ء کے انتخابات ميں کراچی شہر جماعت اسلامی پر ضرور اعتماد کرے گا۔