1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابات کے التواء کی خبریں دم توڑ گئیں

عبدالستار، اسلام آباد
28 مئی 2018

پاکستان میں انتخابات کے التواء یا اس میں تاخیر کی خبریں آج دم توڑ گئیں جب ملک کی سیاسی قیادت نے خوش اسلوبی سے نگراں وزیرِ اعظم کے نام کا انتخاب کیا۔

https://p.dw.com/p/2ySTg
Pakistan Nasirul Mulk
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے متفقہ طور پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کے نام پر اس حوالے سے اتفاق کیا اور خورشید شاہ نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کے بعد اس نام کا اعلان کیا۔ پاکستان میں سیاست دانوں اور سیاسی مبصرین نے اس فیصلے کاخیر مقدم کیا ہے اور اسے سیاسی رہنماوں کی بالغ نظری قرار دیا ہے۔ مبصرین کے خیال میں اس فیصلے کے بعد انتخابات کے التواء کے حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں بھی دم توڑ چکی ہیں۔
اس نامزدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی رہنماوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ عمل جمہوریت کے استحکام میں بہت معاون ثابت ہوگا۔ سیاسی رہنماوں نے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے، جس کا کردار بے داغ ہے اور جس نے اپنے پیشے کے ذریعے قوم کی بھر پور خدمت کی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس انتخاب کو سراہا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں مسائل کو حل کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘
سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ انتخابات میں شدید دھاندلی ہوئی ہے۔ رضا ربانی کے خیال میں جسٹس ناصر الملک لوگوں کے خدشات سے واقف ہیں اور وہ ان انتخابات کو صاف و شفاف بنانے کی بھر پور کوشش کر یں گے،’’قابلِ احترام جج صاحب اُس کمیشن کے سربراہ تھے، جس نے دھاندلیوں کے حوالے سے شکایات سنیں تھیں اور اس کی پوری تفتیش کی تھی۔ انہیں اس طرح کے معاملات کا تجربہ ہے اور وہ لوگوں کے خدشات سے بھی واقف ہیں۔ تو میر ے خیال میں وہ اپنی بھر پور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے  ان خدشات کو دور کریں گے اور شفاف انتخابات کرائیں گے۔‘‘
دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے یہ خبریں گرم تھیں کہ نون لیگ کسی جج یا ریٹائرڈ فوجی کو تسلیم نہیں کرے گی لیکن پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق کے خیال میں پارٹی نے ایسا کبھی نہیں کہا، ’’ہم نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اگر خورشید شاہ نے ایسی کوئی بات کی ہے تو آپ ان سے پوچھیں۔ ہمارے خیال میں جسٹس ناصر الملک کا انتخاب بہترین ہے۔ ان کے خلاف کسی کو کوئی شکایت نہیں ہے اور وہ عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔‘‘
تاہم نون لیگ کے ایک ذریعے نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کسی ریٹائرڈ جج کے حق میں نہیں تھی،’’لیکن ہمیں خدشہ تھا کہ اگر معاملہ کمیٹی کے پاس گیا اور وہاں کوئی اتفاقِ رائے نہ ہوا تو پھر یہ الیکشن کمیشن میں جائے گا۔ وہاں جانے سے بہت سے خدشات پیدا ہوتے اور الیکشن کے بر وقت انعقاد پر بھی سوالیہ نشان لگتا۔ لہذا ہم نے سوچا کہ اس پر اتفاق کر لیا جائے کیونکہ ان کا نام اتنا متنازعہ بھی نہیں ہے۔ ان کے حوالے سے جاوید ہاشمی نے انکشافات بھی کئے تھے لیکن انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے جو تحقیق ہوئی، اس میں جج صاحب کا کردار غیر جانبدارانہ تھا۔‘‘

Pakistan Ex-Premierminister Nawaz Sharif
دارالحکومت اسلام آباد میں پہلے یہ خبریں گرم تھیں کہ نون لیگ کسی جج یا ریٹائرڈ فوجی کو تسلیم نہیں کرے گیتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

عمران خان کی نظریں وزارت عظمی کی کرسی پر
کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ نگراں سیٹ اپ میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہوگا۔ نون لیگ نے بھی اسی طرح کا تاثر کئی مرتبہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں جی ایچ کیو اس پورے عمل سے لاتعلق رہا، ’’میرا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس پورے عمل میں غیر جانبدار رہی لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں کو ہر چیز کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کا شوق ہے۔ جیسے دھرنے اس لئے ہوئے تھے کہ ماڈل ٹاون میں ایک درجن سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا تھا اور ان کو انصاف نہیں مل رہا تھا لیکن اس کا بھی ملبہ فوج پر ڈالا گیا۔ پھر نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے باتیں اڑائی گئیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا سیٹ اپ لانا چاہتی ہے لیکن اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ یہ سیٹ اپ سیاسی قیادت کی طرف سے لایا گیا ہے۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں کیونکہ جسٹس ناصر الملک نے پی ٹی آئی کی دھاندلی کے حوالے سے درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ شاید اس وجہ سے نواز شریف ان کی نامزدگی پر راضی ہوئے ہیں،’’ورنہ نواز شریف نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ ریٹائرڈ جج یا بیوور کریٹ کو تسلیم نہیں کریں گے لیکن یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ نواز شریف اور دوسرے سیاسی رہنما سیاست دانوں سے زیادہ ججز کو قابلِ قبول سمجھتے ہیں۔ بہر حال سیاسی جماعتوں نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد غیر یقینی کیفیت بھی ختم ہوگی اور انتخابات کے التواء کے حوالے سے خبریں بھی دم توڑ جائیں گی۔‘‘