چینی صوبہ سنکیانگ میں 11 قیدیوں کی سزا کم کر دی گئی
3 فروری 2016چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق سنکیانگ کی حکومت نے جن 11 افراد کی سزا میں کمی کر دی ہے انہیں ریاستی سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے سزائے قید دی گئی تھی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران سنکیانگ میں تشدد کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ چینی حکومت اس بے چینی کا الزام مسلمان عسکریت پسندوں کے سر لگاتی ہے جو اقلیتی ایغور نسل کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ سنکیانگ میں آباد زیادہ تر مسلمان ایغور نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ترکی سے ملتی جلتی زبان بولتے ہیں۔
شنہوا کے مطابق جن افراد کی سزائے قید میں کمی کی گئی ہے ان میں سات ایسے افراد بھی شامل ہیں جو عمر قید بھگت رہے تھے مگر اب ان کی سزا کو کم کر کے ساڑھے انیس سے بیس برس تک کر دیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر چار افراد کی سزا میں چھ چھ ماہ کی کمی کی گئی ہے۔ یہ لوگ آٹھ سے 15 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
ایغور مسلمانوں کے مرکزی جلاوطن گروپ کے ترجمان نے اس رپورٹ کو ’سیاسی پراپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
شنہوا نیوز ایجنسی نے سنکیانگ کے گورنر شہرت ذاکر کے حوالے سے بتایا ہے کہ علاقے کی جیلیں حالیہ برسوں کے دوران قیدیوں میں انتہا پسندی کم کرنے کی کوششوں میں بہت کامیاب رہی ہیں اور سزا بھگتنے والے قیدیوں کی زیادہ تر تعداد قانون کا احترام کرنے والے شہریوں میں بدل چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی کوششوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ایسے لوگوں کے لیے جو ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں قید ہیں۔
شنہوا کے مطابق اس پروگرام کے تحت مذہبی رہنماؤں اور اسکالرز کو جیلوں میں مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ قیدیوں کے ’مذہبی عقائد کی درستگی‘ کے لیے ان سے بات چیت کریں۔ جن لوگوں کی سزائے قید میں کمی کی گئی ہے ان میں حسین جلیلی بھی شامل ہے۔ ایغور نسل کے کینیڈین، جلیلی کو 2007ء میں دہشت گردی کے الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔ چین اسے اپنا شہری قرار دیتا ہے۔ شنہوا نیوز ایجنسی نے جلیلی کا ایک بیان بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے، ’’میرے جرائم نے میرے ملک، سنکیانگ، میرے خاندان اور میرے بچوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لُو کینگ کے مطابق انہیں قید کی سزا میں اس کمی کی تفصیل معلوم نہیں ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ سزا بھگتنے والے تمام قیدی چینی شہری ہیں۔