انتہاپسند نئی بیٹھک ڈھونڈ رہے ہیں، جرمن حکام
16 اکتوبر 2010جرمن شہر ہیمبرگ میں ماضی میں انتہاپسند مسلمانوں کے زیراستعمال رہنے والی طیبہ مسجد کو بند بھی کیا جا چکا ہے، جس کا تعلق نیو یارک میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں سے بھی بتایا جاتا ہے۔ ان حملوں میں ملوث عطا محمد بھی اس مسجد میں جایا کرتا تھا۔ پولیس نے اگست میں وہاں چھاپہ مارا، جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔
حکام نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انتہاپسند مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ طیبہ مسجد کی طرز پر ہی نئی بیٹھک ڈھونڈ رہے ہیں۔
یہ مسجد ہیمبرگ کے مرکزی ریلوے سٹیشن کے قریب واقع ہے۔ تاہم سکیورٹی سروسز نے اس جرمن شہر میں اسلام پسندوں اور مسلم تنظیموں کی نگرانی بڑھا دی ہے جبکہ وہاں پہنچنے والے مشتبہ نئے لوگوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
ہیمبرگ کی شہری حکومت میں داخلی امور کے ترجمان رالف کنز کا کہنا ہے، ’ماضی میں سابق طیبہ مسجد آنے والے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ہیں، ہر گروپ میں لوگوں کی تعداد تین سے پانچ تک ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ انفرادی طور پر انتہاپسند نہ صرف ہیمبرگ بلکہ اس کے اردگرد کے علاقوں کی متعدد مسجدوں میں پہنچ چکے ہیں، تاہم وہ کسی ایک مسجد میں گٹھ جوڑ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ہیمبرگ میں کام کرنے والی مسلم تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ انہوں نے بھی اس حوالے سے نگرانی بڑھا دی ہے۔ ہیمبرگ میں قائم گروپ شوریٰ جرمنی میں آباد مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے زیرانتظام مساجد میں اس نوعیت کے کسی مسئلے کے شواہد نہیں ملے۔ تاہم شوریٰ کے سربراہ مصطفیٰ یولداس نے انتہاپسندانہ اسلامی نطریات رکھنے والے ایک گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا، ’سلفی بعض دیگر جماعتوں میں قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ایسی دو مسجدوں کے بارے میں جانتا ہوں، جہاں وہ اکٹھے ہوتے ہیں اور لیکچر دیتے ہیں۔ تاہم وہ کمزور ہیں اور کمزور ہی رہیں گے، یہاں کبھی مرکزی دھارے کا حصہ نہیں بن سکیں گے۔‘
طیبہ مسجد کو القدس مسجد بھی کہا جاتا تھا، پولیس نے اس کا تعلق پاکستان اور افغانستان کے مسلح اسلامی گروپوں سےبتایا تھا۔ اس مسجد سے تعلق رکھنے والے 11افراد پر مشتمل ’ہیمبرگ ٹریول گروپ‘ مارچ 2009ء میں افغانستان میں اتحادی فوجوں سے لڑنے کے لئے جرمنی سے روانہ ہو گیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ