1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’اندر حماس اور باہر اسرائیل ‘‘ خود کشی نہ کریں تو کیا کریں

عدنان اسحاق30 ستمبر 2015

فلسطینی علاقے غزہ میں خود کشی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ اپنی جان لینے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک روایتی اور مذہبی معاشرے میں اس نئے رجحان کی وجوہات کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/1Gfrg
تصویر: G. Van Kesteren

غزہ ایک محصور علاقہ ہے۔ یہاں اسلامی تنظیم حماس بر سر اقتدار ہے جبکہ اس علاقے کی بیرونی سرحدوں پر اسرائیلی فوج کی کڑی نگرانی ہے۔ اس صورتحال میں غزہ کے باسی شدید ذہنی مشکلات اور دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کی مثال معمر قدیر کی ہے۔ قدیر کی عنقریب شادی ہونے والی تھی لیکن غزہ پٹی میں آج کل زندگی جس قدر دشوار ہو چکی ہے وہ اس دباؤ کو برداشت نہیں کر سکا اور اس نے اپنی جان لینے کی ناکام کوشش کی۔ اس اکیس سالہ فلسطینی نوجوان نے چوہے مار دوا کھا لی۔ وہ بتاتا ہے’’ میرے لیے سب دروازے بند ہو چکے تھے۔ پولیس مجھے ہر تھوڑے دن میں گرفتار کر لیتی تھی اور پھلوں کے میرے ٹھیلے کو بھی بند کر دیا جاتا تھا۔ میری آمدنی بھی انتہائی کم ہو چکی تھی‘‘۔

غزہ میں خود کشیوں کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں اور پولیس ایسی خبروں کی تردید کرتی ہے۔ تاہم سلامتی کے ادارے کے ایک رکن نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف کو بتایا کہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہو چکی ہے اور ہر روز تقریباً دو تین ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بھی ہسپتال میں لائے جانے والے بہت سے مریضوں میں زہریلے مادوں کے کھانے کے رجحان کو خطرناک قرار دیا ہے۔

Anja Niedringhaus-Preis – Pressebilder
تصویر: Heidi Levine

تیس سالہ محمد ابو عاصی بھی ان چند لوگوں میں سے ایک ہے، جس نے زہر کھانے کی وجہ سے چند دن کومہ میں گزارے ہیں۔ تیس سالہ عاصی کے مطابق ’’ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اپنے بچوں کی نگہداشت کر سکوں تو میں نے سوچا کہ انہیں اپنے سامنے بلکتا ہوا دیکھنے سے بہتر ہے کہ مر ہی جاؤں‘‘۔

2008ء سے اب تک حماس اور اسرائیل کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ غزہ کی آبادی 18 لاکھ ہے اور یہ انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے۔ پانی اور بجلی تک رسائی کافی محدود ہے اور بے روزگاری کی شرح 42 فیصد ہے۔ ساٹھ فیصد نوجوان بے روز گار ہیں جبکہ 39 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ ایک تازہ جائزے کے مطابق غزہ کی 52 فیصد آبادی ہجرت کرنا چاہتی ہے لیکن سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کر نہیں سکتے۔

ماہر اقتصادیات عمر شعبان کا موقف ہے کہ غزہ میں خود کشی کی وجہ ’’ڈپریشن‘‘ یا ذہنی دباؤ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عوام کے لیے ایک ایسی جگہ بن چکی ہے، جہاں انہیں نقصان مسلسل پہنچ رہا ہے، انہیں ہر وقت ظلم کا سامنا ہے، اِس علاقے میں تشدد اور عسکریت پسندی ہے اور ہر وقت دھماکوں کا ڈر ستاتا ہے۔