انسانوں اور جانوروں کے DNA کا ملاپ
23 نومبر 2009انسان اور جانوروں کے DNA کے ملاپ کی کوششوں میں سائنسدان ایک عرصے سے مصروف ہیں۔ اس تحقیق میں انسانی جین کو جانوروں میں اور جانوروں کے DNA کو انسانوں میں منتقل کرنے کا کام کیا جارہا ہے۔ تاہم اس متنازعہ تحقیق کے حوالے سے سائنسدانوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
اس تحقیق میں مصروف برطانوی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ سے وابستہ سٹیم سیل ماہر روبرٹ لوویل بیڈیج کہتے ہیں:’’اس تحقیق کے بارے میں سوچتے ہیں تو بہت برا سا محسوس ہوتا ہے۔ تاہم اگر اس سے کچھ عجیب سی شے تخلیق ہوتی ہے تو یہ ایک کامیابی ہوگی۔‘‘
مختلف جانوروں کے خلیوں میں کروموسومز کی تعداد مخلتف ہوتی ہے۔ انسان کے ہر ایک خلیے میں 46 کروموسومز ہوتے ہیں۔ اگر انسانی جین کو کسی دوسرے جانور سے ملایا جائے تو پیدا ہونے والی شے کم سے کم انسان نہیں ہوگی۔ سائنسدانوں کے ایک حلقے کاخیال ہے کہ اس موضوع پر تحقیق سے قبل عوام میں اس حوالے سے آگہی کی شدید ضرورت ہے۔
بیڈیج نے اس حوالے سے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا کہ کئی برس قبل انسانی جین کو چوہے میں داخل کیا گیا تھا تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ اس سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔ اس طرح کسی بیماری کے پھیلنے کی وجہ اور اس کے ممکنہ علاج سے متعلق معلومات میں اضافہ ہو سکتا تھا اور اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ہوئی۔‘‘
سائنسدانوں نے یہ کوشش بھی کی کہ انسانی DNA کو کسی جانور کے کسی خاص عضو میں داخل کرکے اس کی نشوونما کو دیکھا جا سکے تاکہ اس طرح کسی جانور کے جسم میں انسانی عضو پیدا کرکے بعد میں ضرورت پڑنے پر انسان میں منتقل کیا جاسکے۔
’’اس عمل کی چند اچھی مثالیں ہیں تاہم ان تجربات نے کچھ لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔‘‘
دو برس قبل برطانوی سائنسدانوں نے ایک متنازعہ تحقیق کا آغاز کیا تھا، جس کے تحت ایک گائے کے رحم میں انسانی ایمبریو داخل کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مادہ خرگوش کے جسم میں موجود انڈوں میں بھی انسانی جین داخل کیا گیا تھا۔ ناقدین کی جانب سے سخت تنقید کے باعث سائنسدانوں نے اس ایمبریو کو چودہ روز بعد ہی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اس طریقے سے انسانی سٹیم سیل کی تخلیق کے عمل کو سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی تھی۔
برطانوی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل ریسرچ سے وابستہ سائنسدان روبرٹ لوویل بیڈیج نے مطالبہ کیا کہ سائنسدانوں کے لئے اس حوالے سے واضح حد کا تعین کیا جانا ضروری ہے، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اس تحقیق کے دوران وہ کس حد تک انسانی اور حیوانی DNAکا ملاپ کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال اس بارے میں تمام تر قوانین اور آرا بڑی غیر واضح اور مبہم ہے۔
اس تحقیق میں مصروف برطانوی گروپ کے چیئرمین مارٹین بوبرو نے کہا:’’ہم صرف یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ذمہ داری کی تعریف کیا ہے۔‘‘
مارٹین بوبرو نے مزیدکہا کہ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس تحقیق میں انسانی دماغی خلیوں کو کسی جانور میں داخل کر دیا جائے گا یا کسی جانور میں انسانی خصوصیات پیدا ہو جائیں گی۔
دوسری جانب اس تحقیق پر نگاہ رکھنے والے برطانوی ادارے ہیومن جینیٹکس الرٹ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ کنگ کا کہنا ہے کہ ان کی نگاہ میں ایسے تجربات کی کوئی سمجھ میں آنے والی وجہ نہیں بنتی۔
’’اگر آپ حتمی طور پر یہ ہی نہیں بتا سکتے کہ آپ کیا تخلیق کرنےجا رہے ہیں تو آپ کو وہ کام کرنا ہی نہیں چاہیے۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : گوہر نذیر گیلانی