انسانوں کے تاجروں کا نشانہ مہاجر خواتین اور معصوم بچے
20 مئی 2016یورپی یونین کی جانب سے انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہوں سے متعلق جمعرات کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسے جرائم پیشہ عناصر کا اصل ہدف بچے ہیں، کیوں کہ انہیں مشقت کے کاموں کے لیے بھرتی کرنا اور مہاجرین میں شامل کرا کے دیگر مقامات کی طرف منتقل کرنا آسان ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ان بچوں کو طویل فاصلے تک چوں کہ تنہا سفر کرنا پڑتا ہے، اس لیے یہ کئی طرح کے جنسی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لیبیا کے ذریعے نائجیریا سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور خواتین کو بھی مہاجرین میں شامل کرا کے یورپ کی جانب بھیجا جا رہا ہے اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جنوری تا ستمبر نائجیریا سے تعلق رکھنے والی چار ہزار تین سو ستر سے زائد لڑکیوں اور خواتین نے یورپ کا رخ کیا، جب کہ اس سے ایک برس قبل اسی عرصے میں یہ تعداد ایک ہزار آٹھ رہی تھی۔
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت IOM کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر ان خواتین میں سے 80 فیصد انسانی تجارت کا شکار ہوئیں۔ یورپی کمیشن نے اس صورت حال کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت کی روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین نے یورپی یونین کی رکن ریاستوں کا رخ کیا، جن میں 88 ہزار سے زائد تنہا بچے بھی شامل تھے، جو یورپ پہنچے تھے۔ یورپی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق، ’’بچے انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہوں کا سب سے بڑا اور آسان شکار ہوتے ہیں۔‘‘
رپورٹ کے مطابق گو کہ بچوں کی تجارت اور مہاجرین کا بحران دو علیحدہ علیحدہ مسئلے ہیں، تاہم مہاجرین کے بحران کے تناظر میں بچوں کی تجارت میں اضافے کے واضح رجحانات سامنے آئے ہیں۔
سن 2013 سے 2014 تک سولہ ہزار خواتین، مرد اور بچے انسانی تجارت کے متاثرین کے طور پر رجسٹر کیے گئے تھے، تاہم گزشتہ برس اس تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مہاجرین کے بہاؤ کی وجہ سے اس وقت اس صورت حال کے حوالے سے درست اعداد و شمار جمع کیے جانا آسان نہیں، تاہم یہ بات واضح ہے کہ انسانی تجارت کا شکار افراد میں سے 97 فیصد کو جنسی استحصال کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جب کہ ان افراد کو جبری مشقت کا سامنا بھی ہے۔