انسانی بیضہ عطیہ کرنے کو جائر قرار دیا جائے، جرمن ماہرین
5 جون 2019معتبر تنظیموں جرمن اکیڈیمی برائے سائنسز لیوپولڈینا اور جرمن اکیڈیمیز برائے سائنسز اور ہیومینیٹیز سے وابستہ ڈاکٹروں اور طبی اخلاقیات کے ماہرین نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحت کے قوانین میں تبدیلی لاتے ہوئے نئے تولیدی ضابطوں کو متعارف کرائے۔
اس مطالبے کے تناظر میں میڈیکل ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر سال بچے کی طلب رکھنے والے ہزاروں جوڑے اپنے تولیدی نظام کے علاج کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ان جوڑوں کو دوسرے ممالک میں علاج کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔ جرمنی میں بچے کے حصول کی خاطر علاج کی سہولت قطعاً میسر نہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمن میں ایمبریو پروٹیکشن ایکٹ کے تحت انسانی بیضہ کو عطیہ کرنا ممنوع ہے۔ یہ قانون تقریباً انتیس برس سن 1990 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اسی قانون کے تحت جرمنی میں کوئی بھی عورت کسی اور کے لیے بچے پیدا نہیں کر سکتی یعنی کرائے کی ماہ کے کردار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی قانون یورپی یونین کی بارہ ریاستوں میں مستعمل ہے۔
فیڈرل ایسوسی ایشن برائے جرمن تولیدی مراکز و ادویات کے اُرش ہیلانڈ کہتے ہیں کہ جرمن ضوابط تولیدی نظام کے آپشنز کو محدود کرتا ہے اور ان کی وجہ سے جو دوسرے ممالک میں درست اور جائز ہے، وہ یہاں جرم کہلاتا ہے۔ ہیلانڈ کے مطابق جرمن سائنسی ریسرچ کی نگاہ میں یہ ضوابط بوسیدہ ہو چکے ہیں۔
گوئٹنگن یونیورسٹی کی شعبہ طبی اخلاقیات و میڈیسن ہسٹری کی ڈائریکٹر کلاؤڈیا ویسن مان کہتی ہیں کہ یہ ضوابط جامعیت کا شکار نہیں ہیں۔ کلاؤڈیا ویسن مان جرمن اخلاقیاتی کونسل کی نائب صدر بھی ہیں۔ ان کا مزید کہا ہے کہ انسانی بیضے کے تحفظ کے تناظر میں موجودہ جرمن ضابطے انتہائی محدود ہیں اور ان میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بات جرمنی میں بحث طلب نہیں کہ انسانی بیضے کا عطیہ غیرقانونی فعل ہے۔ اس قانون کے تحت بانجھ خواتین کسی دوسری عوت سے افزائش شدہ بیضہ حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ بیضے کو کسی بھی بانجھ عورت میں صرف مصنوعی طریقے سے داخل کیا جاتا ہے اور اس پر بھی ڈاکٹر ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس بیضے کی افزائش کے امکانات زیادہ ہیں۔
فابیان شمٹ (عابد حسین)