1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی جذبات کا سیاسی اور سماجی حالات پر اثر

13 نومبر 2022

گزشتہ دو دہائیوں سے مورخ انسانی جذبات اور احساسات کی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ یہ ایک نیا موضوع ہے، جس میں نفسیات اور عمرانیات سے مدد لی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4JOXn
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

انسانی جذبات مختلف حالات کی پیداوار ہوتے ہیں اور حالات کے بدلنے کے ساتھ ان کے معنی، مفہوم اور کردار بھی بدل جاتے ہیں۔ محبت اور نفرت، دوستی اور دشمنی، فیاضی اور کنجوسی، رحم دلی و ظلم اور دوسرے انسانی جذبات اپنے وقت اور حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ کبھی جذبات افراد کو مغلوب کر لیتے ہیں اور کبھی وہ جذبات پر قابو پا کر حالات و واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ڈاکٹر مبارک علی کا کالم: قومی کلچر کی تشکیل

یہ بھی پڑھیے: ڈاکٹر مبارک علی کا کالم: بازاری کلچر

یہاں ہم ایک مثال رونے کی دیتے ہیں، جب بھی کوئی فرد صدمے یا حادثے سے دوچار ہوتا ہے تو وہ بے اختیار رو پڑتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب مرد اور عورت بغیر کسی شرم کے پبلک میں رو دیتے تھے، لیکن جب معاشرے میں پدر سری کا نظام مستحکم ہوا تو مردوں کے لیے پبلک میں رونا ان کی مردانگی کے خلاف تھا، جب کہ عورتوں کے لیے رونا ان کی کمزوری کی علامت تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ عورتیں رو کر اور ٹسوے بہا کر اپنی منواتی ہیں۔

ہمارے پاس اس سلسلے میں کچھ تاریخی مثالیں بھی ہیں۔ جب سلطان بلبن کا بیٹا خان شہید ملتان میں منگولوں کے ہاتھوں مارا گیا تو یہ خبر سن کر بلبن نے کسی صدمے کا اظہار نہیں کیا۔

لیکن جب وہ دربار سے اٹھ کر اکیلا اپنی تنہائی میں گیا تو وہاں زار و قطار رویا، کیونکہ پبلک میں وہ رو کر اپنی کمزوری کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔

شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ  میں جب اسے اپنے خاندان کے قتل کی خبر ملتی ہے تو وہ بے اختیار رونے لگتا ہے۔ اس پر اس کا ایک مصاحب کہتا ہے کہ آپ بادشاہ ہیں، آپ کو اس طرح نہیں رونا چاہیے۔ میکبتھ جواب میں کہتا ہے I have feelings too، یعنی میرے بھی جذبات ہیں۔

انسانی جذبات کو جنگ میں استعمال کر کے فوجیوں کی ہمت افزائی کی جاتی ہے کہ وہ بہادری سے لڑیں۔ کبھی ان میں مذہبی جذبات کو پیدا کیا جاتا ہے، کبھی انہیں فتح کے بعد لوٹ مار کا لالچ دیا جاتا ہے۔

ایتھنز کے فوجی پیلپو نیشن جنگ میں مارے گئے تھے۔ ان کی بہادری اور وطن کے دفاع کے لیے جان دینے پر پیری کلیز نے، جو جمہوریت کا رہنما تھا، ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مجمعے سے خطاب کیا۔

میدان میں ایک جانب مرنے والوں کے تابوت تھے تو دوسری جانب ان کے اہل خاندان اور ایتھنز کے لوگ تھے۔ پیری کلیز کی تقریر نے سب کو رلا دیا۔

مغل بادشاہ بابر نے بھی اپنے فوجیوں کے مذہبی جذبات کو اس وقت ابھارا جب 1527ء میں اس کا مقابلہ رانا سانگھا سے ہوا تو میدان جنگ میں رانا سانگھا کی فوج تعداد میں زیادہ تھی اور بابر کو اس سے خطرہ تھا۔

اس وقت صورتحال اور بگڑ گئی جب ایک نجومی نے آ کر اس کی شکست کے بارے پیشین گوئی کی۔ بابر نے ان حالات میں اپنے فوجیوں کے مذہبی جذبات کو ابھارا اور انہیں متاثر کرنے کے لیے یہ اعلان بھی کیا کہ آئندہ سے وہ شراب نہیں پیے گا، اور پھر شراب پینے والے برتن توڑ کر شراب کو بہا دیا۔

اس تقریب میں فوجیوں کو شہید ہونے یا غازی بننے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا۔ وہ بہادری سے لڑے اور فتح یاب ہوئے۔

فوجی جنرل اپنے فوجیوں میں لالچ کا یہ جذبہ بھی پیدا کرتے تھے کہ فتح کے بعد انہیں لوٹ مار کی اجازت ہو گی۔

سن 1799ء میں جب ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی تو انگریز کے کمانڈر نے سب سے پہلے ٹیپو سلطان کے خزانے پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد فوجیوں کو اجازت دے دی کہ وہ شہر کو لوٹیں۔

جذبات اور احساسات کو تجارت کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دار دلکش اشتہارات کے ذریعے لوگوں میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ وہ اس کی کمپنی کی مصنوعات کو خریدے۔ جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ صحت کے لیے مفید ہوں گی اور ان کے استعمال سے خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ ہو گا۔

جو 'سیلز مین‘ اور 'سیلز گرلز‘ شاپنگ سینٹرز پر اشیا فروخت کرتے ہیں، ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے چہروں کو ہشاش بشاش رکھیں اور مسکراتے رہیں، کیونکہ اس سے گاہک ان کی طرف مائل رہتا ہے۔

ان سیاسی، مذہبی اور تجارتی استعمال کے علاوہ جذبات کو اور کئی طرح سے حکمران طبقے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

جب ہٹلر کی حکومت میں یہودیوں کے خلاف اقدامات کیے گئے تو ہٹلر نے فوجی دستے سے خطاب کرتے ہوئے ایک فوجی کے سینے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ 'تم یہاں سے رحم دلی کے جذبات کو نکال دینا، کیونکہ جب ریاست کے مخالفین کو اذیت دی جاتی ہے یا ان کو قتل کیا جاتا ہے تو اس وقت رحم دلی کے بجائے سخت نفرت کا احساس ہونا چاہیے، کہ یہ ملک اور قوم کے دشمن ہیں اور ان کو سزا دے کر ملک کا دفاع کرنا چاہیے‘۔

اس لیے جب سیاسی قیدیوں اور سیاسی نظریات رکھنے والوں کو اذیت دی جاتی ہے تو اذیت دینے والی اتھارٹی  ان کے دکھ درد کو محسوس نہیں کرتی ہے اور انہیں انسانیت کے درجے سے گرا کر ان کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے۔

اسی نفرت کو ہم فرقے ورانہ فسادات میں دیکھتے ہیں۔ جہاں ایک دوسرے کو قتل کر کے فخر کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔

حکمران طبقے اپنی دولت اور ذرائع کی بنیاد پر فیاضی اور سخاوت کے اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں غربت اور مفلسی نہ ہو تو اس صورت میں فیاضی اور سخاوت کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔

رحم دلی کا مظاہرہ بھی طاقتور کمزور لوگوں پر کرتے ہیں۔ صدقہ اور خیرات کے ذریعے غریبوں کو محتاج بنا کر دولت مندوں کا دست نگر کر دیتے ہیں۔

اگرچہ انسانی جذبات اور احساسات امیر اور غریب میں یکساں ہوتے ہیں مگر ان کا اظہار مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً ایک جاگیردار اپنے ہاریوں پر کھل کر اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے اور ہاری کمزور ہونے کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں یہ بھی ہوا ہے جب کسانوں نے بغاوت کی اور متحد ہو کر ایک طاقت بنے تو جاگیردار کے سامنے اپنے غصے کا بھرپور اظہار کیا۔

مثلاً 1725ء میں جرمنی میں ہونے والی کسانوں کی بغاوت، جب انہوں نے ایک جاگیردار کے قلعے پر حملہ کر کے اسے قتل کرنے کے لیے باہر نکالا تو اس نے کسانوں سے معافی مانگی۔

مگر ان میں سے ایک کسان نے غصے سے کہا کہ تم نے میرے بھائی کو قتل کرایا تھا تو دوسرے کسان سے کہا کہ تم نے میرا ہاتھ کٹوایا تھا، لہٰذا تم نے ہم پر جو ظلم کیے تھے اس کی سزا بھگتنا ہو گی۔ یہ کہہ کر اس کو قتل کر دیا۔

اس لیے حالات کے تحت لوگ اپنے جذبات پر قابو پاتے ہیں مگر جب موقع ملتا ہے تو ان کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

تاریخ میں انسانی جذبات اور احساسات اپنا کردار ادا کر کے تاریخی عمل کو بدل دیتے ہیں۔ اس لیے تاریخ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات و احساسات کی تاریخ کو پوری طرح سے سمجھا جائے۔