انٹرنیٹ پر بلاگز کی انوکھی دنیا
21 اپریل 2009انٹرنیٹ، بلاگنگ اور جدید ذرائع ابلاغ سے متعلق جرمنی کی سب سے بڑی کانفرنس حال ہی میں جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہوئی، جس میں دُنیا بھر سے آئے ہوئے ایک ہزار پانچ سو ماہرین شریک ہوئے۔ تین روز تک جاری رہنے والی یہ کانفرنس ری پُبلیکا کہلاتی ہے اور سب سے پہلے سن دو ہزار سات میں منعقد کی گئی تھی۔
جب ریڈیو متعارِف ہوا تو کہیں اڑتیس برس بعد اُس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد پچاس ملین کی حد تک پہنچ پائی تھی۔ اِس کے برعکس ’’آئی پَوڈ‘‘ کو اِس تعداد تک پہنچنے میں صرف تین برس لگے اور انٹرنیٹ پر باہمی رابطے اور میل جول کے پروگرام ’’فیس بُک‘‘ کی اتنی ہی تعداد میں صارفین تک رسائی صرف دو برس میں ہی ہو گئی۔ برلن منعقدہ تیسری سالانہ کانفرنس میں اِس طرح کی باتوں کا تذکرہ رہا۔
یہاں اور باتوں کے ساتھ ساتھ بلاگز کا بھی خوب چرچا رہا۔ دنیا بھر میں گذشتہ چند برسوں سے بلاگرز انرنیٹ پر اپنے تاثرات رقم کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ زیادہ سے زیادہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ جرمنی میں بلاگز لکھنے والوں کی تعداد کا اندازہ تقریباً پانچ لاکھ لگایا گیا ہے۔ جرمن صحافی اسٹیفان نِگے مائر کے بلاگ میں میڈیا کی سرگرمیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ منفرد اور خاص قسم کی معلومات کے لئے جرمن محقیقن اور اپنے اپنے شعبے کے ماہرین کے بلاگز سے رجوع کرنا چاہیے۔
’’میرے خیال میں ایسے بہت سے لوگ ہیں، جو صحافی نہیں ہیں لیکن اپنے اپنے پیشے کے بارے میں دلچسپ باتیں بیان کرتے ہیں۔ مثلاً ایک سلسلہ ہے، لاء بلاگرز کا۔ اِس میں اُوڈو فَیٹر، جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، اپنے پیشے سے متعلق ایسی ایسی نئی باتیں بتاتے ہیں، جو ذرائع ابلاغ میں کہیں نظر نہیں آتیں۔‘‘
اسی کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے امریکی ماہر جون کیلی بھی موجود تھے، جنہوں نے بتایا کہ جرمنی میں سیاست اور سماج پر ہونے والی بحث میں بلاگز ابھی تک کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کر رہے۔ تاہم کسی معاملے کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینے کے لئے حوصلے اور ہمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
جرمن باشندے بلاگز لکھنے سے کیوں گھبراتے ہیں، اِس بارے میں ایک جرمن خاتون کا کہنا تھا:’’میں سمجھتی ہوں کہ اِس کا تعلق جرمنوں کی ذہنیت سے ہے کہ وہ تھوڑا سا محتاط رہتے ہیں، پہلے خاموش تماشائی بنے صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہی اور دیکھتے ہیں کہ آگے ہوتا کیا ہے۔‘‘
بلاشبہ جرمن بلاگرز کی کم ہمتی بھی ایک وجہ ہے کہ یہاں بلاگز کا کردار ابھی بہت محدود ہے۔ برلن کی ری پُبلیکا نامی کانفرنس کے منتظمین میں شامل مارکُس بیکن ڈاہل اِس حوالے سے بتاتے ہیں:’’جرمنی میں بہت سے لوگ کسی موضوع پر تنقیدی رائے دینے کی ہمت نہیں کرتے، اِس ڈر سے کہ ہو سکتا ہے پھر کہیں ملازمت ہی نہ ملے۔ یعنی وہ اپنے اصل نام سے لکھیں اور پھر کہیں ملازمت کی درخواست دیں تو اُنہیں ڈر رہتا ہے کہ اگر اُنہوں نے اپنی تحریروں میں حکومتی پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے تو ہو سکتا ہے کہ بینک وغیرہ اُنہیں ملازمت نہ دیں۔‘‘
تاہم بیکن ڈاہل نے اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی جرمنی کے سیاسی کلچر میں بھی بلاگز وہی اہمیت اختیار کر جائیں گے، جو اُنہیں امریکہ میں حاصل ہے۔ اُنہوں نے بالخصوص جرمن نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جوانی میں ابھی اُن کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہوتا، اُنہیں اِ ن نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ نت نئے تجربات کرنے چاہییں، اِن کی مدد سے جمہوری عمل میں سرگرم شرکت کرنی چاہیے اور کھلے عام اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ جرمن آئین اِس کی مکمل آزادی دیتا ہے۔
برلن منعقدہ کانفرنس ری پُبلیکا میں امریکہ کےجمی ویلز کو جریدے ’’ایسکوائر‘‘ کی جانب سے اکیسویں صدی کی پچھتر با اثر ترین شخصیات میں سے ایک قرار دیا گیا کیونکہ اُنہوں نے سن دو ہزار ایک میں آن لائن انسائیکلو پیڈیا وِکی پیڈیا کی بنیاد رکھی تھی۔
اِسی کانفرنس میں مَیری جوائس بھی تھیں، جو امریکی صدر باراک اوباما کی انتخابی مہم کے منتظمین میں شامل تھیں۔ اُيہوں نے حاضرین کو بتایا کہ انتخابی مہم پر بلاگز اور دیگر جدید ذرائع ابلاغ کے کیا کیا اثرات رہے۔
امسالہ کانفرنس میں جرمنی کے رابرٹ بیسِک کا بھی چرچا رہا، جو جرمنی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والا بلاگ بیسِک تھنکنگ کے خالق ہیں۔ گذشتہ برس اُنہوں نے اپنا یہ بلاگ تقریباً سینتالیس ہزار یورو میں نیلام کر دیا تھا۔