انٹرنیٹ کی تاریک دنیا ' ڈارک نیٹ‘ کیسے کام کرتی ہے؟
16 نومبر 2019ڈارک ویب ایک ایسا حساس موضوع ہے، جسے میڈیا میں کبھی نمایاں جگہ نہ مل سکی۔ ڈارک ویب ورلڈ وائڈ ویب کا ایک ایسا حصہ ہے جس تک پہنچنے کے لیے خصوصی سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈارک ویب جرائم کی وہ دنیا ہے، جہاں قانون کے ادارے بھی نہیں پہنچ پاتے۔ کیونکہ انٹرنیٹ کے اس گھناؤنے کاروبار سے ہوشربا پیسہ اور کمائی منسلک ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کاروبار سے دنیا کی بہت طاقتور ہستیاں بھی جڑی ہیں۔
اسلحہ کی فروخت، منشیات کے کاروبار کے علاوہ خواتین، مردوں اور بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کی ویڈیوز یہاں اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غیر قانونی مارکیٹ کی طرح ہے۔ استحصال کی ویڈیوز کی خرید و فروخت اور نمائش جیسی سرگرمیاں ڈارک ویب کے وجود کی ضامن ہوتی ہیں۔ عام افراد گوگل پران پوشیدہ سرگرمیوں کو سرچ نہیں کر سکتے۔ صرف وہی افراد ان ویب سائٹس تک پہنچ سکتے ہیں جن کا تعلق انٹرنیٹ جرائم کی اس دنیا سے ہو یا پھر وہ اس کمیونٹی کا حصہ ہوں۔ یہ ویب سائٹس فائر والز کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں۔
ڈارک ویب ڈیپ ویب کا ایک حصہ ہے۔ ڈارک ویب پر اجرتی قاتل بھی دستیاب ہوتے ہیں اور اپنی نفسانی و نفسیاتی تسکین کی خاطر قتل کروانے والے گروہ بھی۔ ایک اندازے کے مطابق عام لوگوں کی رسائی صرف سولہ فیصد ویب سائٹس تک ہے جبکہ باقی تمام ڈارک ویب پر مشتمل ہیں۔ اگر آپ ڈارک ویب کی سائٹ کھول بھی لیں تو آپ یہ پتہ نہیں چلا سکتے کہ اس کو کون چلا رہا ہے یا ا س کے پیچھے کون سا مافیا کام کر رہا ہے۔
ڈارک ویب نے منشیات خریدنے والوں کا کام بہت آسان کر دیا ہے ایسے لوگ جو سرعام یا کسی گلی کوچے یا کسی ایجنٹ کے ذریعے منشیات خریدنے کا کشت نہیں اٹھانا چاہتے وہ بھی منشیات کی خریدای کے لیے ڈارک ویب کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ویب کو استعمال کرنے والوں میں نوجوانوں اور طالب علموں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ کیونکہ یہاں لین دین پوشیدہ ہوتا ہے اور پکڑے جانے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔
بٹ کوائن کا زیادہ استعمال ڈارک ویب میں کیا جاتا ہے۔ منشیات، جعلی پاسپورٹ یا فحش مواد کی خرید و فروخت بٹ کوائن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی کیٹیگری ہے۔ کریڈٹ کارڈز کی معلومات ہیک کر کے یہاں بہت سستے داموں بیچی جاتی ہے۔
کیا سہیل ایاز کا تعلق بھی ڈارک ویب سے ہے؟ سہیل ایاز کون ہے؟ وہ کہاں کام کرتا رہا؟ اس کو کس نے ملازمت پر رکھا کوئی بھی یہ ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔ یہ بات اب ایک معمہ بن چکی ہے کیونکہ پاکستان میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر مسٹر اللانگو پٹچھاموتو نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سہیل ایاز کبھی بھی ورلڈ بینک کا ملازم نہیں رہا۔ بلکہ اس کو خیبر پختونخواہ حکومت نے بطور کنسلٹنٹ ملازمت پر رکھا تھا۔ لیکن مسٹر الانگو کی ٹویٹ پر چند پاکستانی صحافیوں نے سوال اٹھائے کہ ورلڈ بینک کی ویب سائٹ پر سہیل ایاز کا نام موجود ہے لہذا آپ اس سے مبرا نہیں ہو سکتے اس سلسلے میں ورلڈ بینک کی ویب سائٹ کے وہ حصے سکرین شارٹس کی صورت میں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے گئے جن پر سہیل ایاز کا نام موجود ہے۔
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ سہیل ایاز ورلڈ بینک کا مشیر تھا اور مالی اعانت فراہم کرنے والی تنظیمیں اس طرح کے عہدوں پر خدمات حاصل کرنے کی ذمے دار ہیں۔ تاہم اداروں کو اپنے قواعد میں ایک شق داخل کرنا چاہیے تاکہ ایسے افراد کی ملازمت پر پابندی عائد کی جا سکے۔
پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں مبینہ ملزم ایک ہائی پروفائل شخص ہے۔ ذرائع کے مطابق بچوں کے مبینہ جنسی استحصال کے بعد اٹلی بھاگنے والا سہیل ایاز برطانیہ پہنچا توسیو دی چلڈرن میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن بلاآخر پکڑا گیا اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقدمے میں چار سال تک جیل کاٹی۔ اور اس کے بعد برطانیہ نے اسے ملک بدر کر دیا۔
تاہم یہ پاکستان آ کر بھی خیبر پختونخواہ میں بطور کنسلٹنٹ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور تین لاکھ تک تنخواہ وصول کرتا رہا۔ خیبر پختونخواہ میں سہیل ایاز کو کس کے کہنے پر نوکری دی گئی اس بارے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ نوکری کے لیے اس نے کس کو درخواست دی یا کس کی مدد حاصل کی تب بھی یہ ضروری نہیں کہ اس کو ملازمت پر رکھنے والوں کو یہ معلوم ہو کہ سہیل ایاز کا ماضی کیا ہے۔ لیکن حکومت کو اس سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ بہرحال ملازمت کے امیدواروں کی چھانٹی کا کام حکومتی محکمے کی ہی ذمے داری ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں سی پی او راولپنڈی فیصل رانا کا کہنا تھا کہ اگر سہیل ایاز برطانیہ میں قید کاٹ چکا ہے تو اس کا نام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے راڈار پر ہونا چاہیے تھا۔ وہ برطانیہ میں سزا پوری کاٹ چکا تھا اور جب سزا پوری کر لی جائے تو پھر وہاں کی حکومت کو مجرم مطلوب نہیں ہوتا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو اس کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی اس پر نظر رکھنے کہا گیا۔ نہ ہی یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہ دوبارہ سے اس قسم کی حرکت کر سکتا ہے۔
پاکستان میں سہیل ایاز کا نام اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک خاتون نے اس کے خلاف اپنے تیرہ سالہ بیٹے کو اغوا کرکے نشہ آور ادویات کے استعمال اور چار دن تک زیادتی کا نشانہ بنانے کا مقدمہ درج کرایا۔ ایف آئی آر میں درج ہے کہ مجرم نے بچے کو ڈرایا دھمکایا کہ اگر اس نے زبان کھولی یا کسی کو بتایا تو اس کی ریکارڈ کردہ فحش ویڈیوز منظر عام پر لائی جائیں گی۔ تفتیش کے بعد سی پی او راولپنڈی نے انکشاف کیا کہ سہیل ایاز نے تیس سے زائد بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کر لیا ہے۔ بلکہ اس نیٹ ورک کے بارے میں بھی تفصیلات فراہم کی ہیں جو ڈارک ویب پر بچوں کے جنسی استحصال کی فلمیں بناتے یا فروخت کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے اس سوال کے جواب میں کہ معاشرے سے اس ناسور کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کہا، '' یہ بہت ہی غیر صحتمند سماج ہے۔ یہاں سیاسی موضوعات زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ بہت معذرت کے ساتھ ایسے واقعات نہیں رکیں گے۔ کیونکہ ریاست اور سماج ایسے معاملات میں سنجیدہ نہیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد کی معلومات کا ممالک کے بیچ اشتراک کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا اس بارے میں انسانی حقوق کے اداروں نے کبھی توجہ دی؟ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ایسے مجرموں اور سزا یافتہ لوگوں کے ڈیٹا کا ملکوں کے بیچ اشتراک ہونا چاہیے۔ ان کا ایک گلوبل ڈیٹا بننا چاہیے۔
ماہرین خبردار کرتےہیں کہ ایسے لوگ بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں ۔ یہ نہایت خاموشی سے اور چابک دستی سے اپنا کام کرتے ہیں۔ اور کسی کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ سہیل ایاز کے کیس نے کسی ایک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کی حکومتوں کو بے نقاب کر دیا ہے یہ مسئلہ صرف تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا نہیں بلکہ برطانیہ، امریکا اور یورپ میں بھی آئے روز ایسے واقعات منظر عام پرآتے رہتے ہیں۔