انٹرنیٹ کے ذریعے سستی دواؤں کا مہنگا سودا
4 مارچ 2010انٹرنیٹ کے ذریعے ادویات خریدنے کا عمل بظاہرسہل اورکم خرچ لگتا ہے تاہم ان ادویات کے جعلی ہونے اوراکثر جان لیوا ہونے کے بارے میں جوخبریں میڈیا میں عام ہوئی ہیں انہوں نے صارفین کے اندر غیرمعمولی خوف پیدا کردیا ہے۔
جسے ادویات کی خرید میں کفایت شعاری سے کام لینا ہو وہ انٹرنٹ کے ذریعے 30 فیصد یا کبھی کبھی تو 50 فیصد تک کم قیمت والی ادویات آڈر کر سکتا ہے۔ تاہم ان ادویات کے جعلی اور کچھ کیسز میں تو جان لیوا ہونے کے بارے میں متعدد ذرائع سے خبریں ملی ہیں۔ اس ضمن میں صارفین کو خاص طورسے اُن میڈیکل اسٹورز یا دواخانوں سے دوائیں آرڈر کرنے کے عمل میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے جوغیرملکوں میں واقع ہیں اور وہاں سے انٹرنٹ کے ذریعے دئے جانے والے آرڈرز کو ترسیل کے مختلف ذرئعے سے بھیجتے ہیں۔ غیر ملکی دواخانوں کی ادویات کی قیمتیں کئی گنا کم ہوتی ہیں۔ ماہرین ادویات کے مطابق یہ دوائیں زیادہ ترجعلی ہوتی ہیں اوران میں شامل کئی کیمیائی اجزاء صحت اور زندگی کے لئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
جرمنی میں ادویات کا آن لائن آرڈر کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انٹرنٹ صارفین کی کل تعداد میں سے ایک تہائی غیر ملکی فارمیسیز یا دواخانوں سے سستے داموں دوائیں منگوانے کے لئے انٹرنٹ کا سہارا لیتے ہیں۔
جرمن صوبے لوُر ساکسنی کی فارمیسیز کے چیمبر کی صدر میگڈالین لنِزاس ضمن میں جرمنی کے آن لائن ڈرگ اسٹورز کی ادویات کے معیاری ہونے کا یقین دلاتی ہیں ان کے بقول ’جرمنی کی انٹرنٹ کے ذریعے آرڈر کی جانے والی ادویات ٹرانسپورٹ کرنے والے دوا خانے یا آن لائن فارمیسیز، نہایت سختی سے قوانین و ضوابط کا احترام کرتی ہیں، کیونکہ عام فارمیسیز ہی آن لائن ڈرگ اسٹورزکے کاروبار کا انتظام کرتی ہیں۔ اس طرح جرمنی کے ان دونوں دواخانوں کے ذریعے بکنے والی ادویات محفوظ ہیں‘۔
کمپیوٹرماؤس کلک کے ذریعے جو ادویات باہر کی فارمیسیز سے آڈر پر منگوائی جاتی ہیں وہ زیادہ تر ہوائی جہازوں کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ ان کی چیکنگ کرنے والے کسٹم کے اہلکاروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں ان دواؤں کو ٹسٹ کرنا ہوتا ہے۔ جرمن شہر کولون کے کسٹم کے انسداد جرائم کے ادارے سے منسلک ماہر وؤلف گانگ شِمٹس کے مطابق غیر ملکوں سے آنے والی ادویات کے بڑے بڑے پیکٹس میں سے اکثر جعلی دوائیں برآمد ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ
’ بہت کم اصلی دوائیں ملتی ہیں، ان میں سے زیادہ تر جعلی ہوتی ہیں۔ تمام تر تفتیش اورچھان بین کے بعد وہ صارفین کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انٹرنٹ پر ادویات کی مشکوک پیشکش سے دور رہیں‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہہ انٹرنٹ کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کا کاروبار کرنے والے ڈرگ اسٹورز سب سے زیادہ اُن دواؤں سے کما رہے ہیں جن کا تعلق لائف اسٹائل سے ہے۔ مثلاً موٹاپا کم کرنے، بال جھڑنے کے خلاف اور سب سے بڑھ کر جنسی طاقت میں اضافے کے لئے جو ادویات آن لائن کے ذریعے سستے داموں بیچی جا رہی ہیں، زیادہ تر دھوکا اور فریب ہے۔
بون یونیورسٹی کے شعبہ دواشناسی سے منسلک پروفیسر ہارالڈ شوائم کے مطابق اس وقت ادوایات کی منڈی میں بکنے والی زیادہ تر دوائیں جعلی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہارمون ٹیبلٹس، انسولین،اینٹی بائیوٹیکس کے ساتھ ساتھ مانع حمل یا اینٹی بےبی پلزجعلی کیمیائی اجزاء سے بنی ہوتی ہیں اس لئے یہ صحت کے لئے نہایت مُضر ثابت ہو سکتی ہیں۔ جرمن ماہرین کے مطابق یورپی مارکیٹ میں اس وقت بڑی تعداد میں پین کلرز یا درد دور کرنے والی جعلی دوائیں اور’برن اوئانٹمنٹ‘ سمیت دیگر جعلی مرحم بک رہے ہیں۔
غیرمعیاری اورصحت کے لئے نقصان دہ ادویات بنانے والی زیادہ تر کمپنیز ایشیا میں ہیں۔ تاہم ان کی ادویات کا کاروبار یورپی ممالک، خاص طورسے برطانیہ، ہالینڈ، آئس لینڈ اور چیک جمہوریہ میں پھیلا ہوا ہے۔ ماہرین کی ریسرچ کے مطابق انٹرنٹ کے ذریعے بکنے والی ادویات کا کم از کم 50 فیصد جعلی کیمیائی اجزا سے بنی مصنوعات پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایشیائی ممالک، خاص طور سے بھارت میں بہت سے تاجر جعلی ادویات سازی فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے بجائے گھروں کے پچھواڑوں میں بنی چھوٹی چھوٹی نام نہاد لیباریٹریوں میں کرتے ہیں۔ تاہم برطانیہ میں نقلی دوائیں بنانے والی ایک ورکشاپ کا پتہ لگایا گیا ہے۔ اس میں دو لاکھ پچاس ہزار یورو کی مالیت کی ایک مشین جعلی ٹیبلیٹس بنانے کے لئے بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دوائیں نہایت ہوشیاری کے ساتھ نارمل صنعتی معیار کے مطابق تیار کی جاتی ہیں اس لئے اکثر اصلی اور نقلی دواؤں میں تمیز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
جعلی ادویات پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے جنسی طاقت میں اضافے کے لئے استعمال میں لائی جانے والی ایسی ادویات جو آن لائن بہت سستے داموں میسر ہیں، سے خبردار کیا ہے۔ یہ ادویات خاص طور سے نارمل قیمت کے مقابلے میں معمولی قیمت میں انٹرنٹ پر دستیاب ہیں تاہم ان کا استعمال صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جرمن شہر ہنووور سے تعلق رکھنے والی ایک 19 سالہ طالبہ موٹاپا یا وزن کم کرنے والی ایک ایسی دوا کے زیادہ مقدار لینے سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی جو جسم میں چربی یا فیٹ کم کرنے کے لئے مفید سمجھی جاتی تھی۔ خیال رہے کہ یورپ میں اس دوا پر پایندی عائد ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت : افسر اعوان