چینی حکومت کو اپنا ڈیٹا نہ کبھی دیا، نہ دیں گے: ہواوے چیف
18 دسمبر 2019ہوا وے کے سربراہ نے ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ان کی کمپنی نے نہ تو کبھی ایسا کیا ہے اور نہ ہی اسے کبھی ایسا کرنے کے لیے کہا گیا کہ وہ اپنا اہم کاروباری یا اسٹریٹیجک ڈیٹا بیجنگ حکومت کو مہیا کرے۔ لیکن اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اس چینی کمپنی کے بارے میں موقف یہ ہے کہ وہ ایک 'بہت خطرناک‘ ادارہ ہے۔
ہواوے چین کی بین الاقوامی سطح پر مصروف عمل اور بہت بڑی ہونے کے علاوہ انتہائی کامیاب ٹیلی کوم کمپنی بھی ہے، جس کا مرکزی کیمپس جنوبی چین کے شہر شین زین میں ہے۔ اس ادارے کے صدر دفاتر میں بہت پرسکون حالات کار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ کمپنی دنیا بھر میں ڈیٹا نیٹ ورکس کے مستقبل سے متعلق ایک وسیع تر عالمی مقابلے کا حصہ ہے۔
فائیو جی نیٹ ورک میں عالمی لیڈر
ہواوے انتہائی تیز رفتار فائیو جی ڈیٹا نیٹ ورک کے میدان میں عالمی سطح پر قائدانہ حیثیت کا حامل ٹیکنالوجی ادارہ ہے۔ یہی کمپنی دنیا کی وہ انفراسٹرکچر فراہم کرنے والی سب سے بڑی کمپنی بھی ہے، جو ہائی اسپیڈ ڈیٹا نیٹ ورک کے قیام کو ممکن بناتا ہے۔
عالمی سطح پر یہ چینی کمپنی اس وقت سے دفاعی موقف اپنائے ہوئے ہے، جب سے امریکی صدر ٹرمپ نے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ ہواوے امریکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ واشنگٹن کا الزام ہے کہ ہواوے کو بیجنگ میں چین کی کمیونسٹ حکومت بیرون ملک جاسوسی کے لیے اپنے آلہء کار کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ اس سال مئی میں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے یہ شرط بھی لگا دی تھی کہ کوئی بھی امریکی کمپنی خصوصی سرکاری اجازت نامے کے بغیر ہواوے کے ساتھ کوئی کاروبار یا کاروباری اشتراک عمل نہیں کر سکتی۔
'بقا کی جنگ‘
اس پس منظر میں ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل نے شین زین میں ہواوے کے سربراہ لیانگ ہوا کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا، جس کا مرکزی موضوع اس ادارے کو درپیش موجودہ چیلنجز تھے۔ اس انٹرویو میں لیانگ ہوا نے کہا، ''جب امریکا نے ہواوے کو بلیک لسٹ کیا، تو ہماری حالت ایک ایسے ہوائی جہاز کی سی تھی، جس میں جگہ جگہ سوراخ کر دیے گئے ہوں۔ لیکن ہم نے اپنی پرواز جاری رکھی اور بحفاظت واپس گھر پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘‘
لیانگ ہوا کے مطابق، ''ہمیں بہت سے مسائل ابھی حل کرنا ہیں۔ یعنی ہمارے ہوائی جہاز میں جگہ جگہ پیدا ہو جانے والے سوراخ ایک ایک کر کے ہی بند کیے جا سکیں گے۔ ان اقدامات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم اپنی چند مصنوعات کو دوبارہ ڈیزائن کریں اور اس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ ہماری مصنوعات کی صارفین کو سپلائی متاثر نہ ہو۔‘‘
انہوں نے کہا، ''اگر موجودہ حالات کو دیکھیں، تو یہ سال ہمارے لیے اپنی بقا کی جدوجہد کا سال بنا رہا ہے۔‘‘ اس سے قبل اسی سال جون میں ہواوے کے بانی رین ژینگ فائی نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ ان کے ادارے کی آمدنی میں اگلے دو برسوں میں 30 بلین ڈالر (تقریباﹰ 27 بلین یورو) کے برابر تک کمی ہو جائے گی۔
اس تناظر میں لیانگ ہوا نے اپنے انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا ، ''ہماری کوشش اب یہ ہے کہ ہم ان ممالک میں اپنی کاروباری مصروفیات پر توجہ دیں، جہاں ہمیں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ایسے ہی ممالک میں ہم اپنی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوششوں میں ہیں۔‘‘
دو دھاری تلوار
ہواوے کے لیے امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی اس چینی ادارے سے ناخوشی اور اس کے خلاف لگائے گئے الزامات اس لیے ایک دو دھاری تلوار ثابت ہو رہے ہیں کہ ہواوے جو سمارٹ فونز بناتی ہے، ان کے لیے اسے بہرحال ایسے سافٹ ویئر اور سیمی کنڈکٹرز کی ضرورت ہوتی ہے، جو امریکا کی انٹیل اور کوآلکوم جیسی کمپنیاں بناتی ہیں۔ یوں واشنگٹن کے ہواوے کے خلاف الزامات اس لیے بھی تلوار کی دوسری دھار ہیں کہ ایسے اقدامات سے نقصان ہواوے کے ساتھ ساتھ اس کی بزنس پارٹنر امریکی کمپنیوں کو بھی ہو رہا ہے۔
'چینی ساختہ‘ فائیو جی
ہواوے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایسی بہت ہی کم دوسری کمپنیاں ہیں، جو ویسا انفراسٹرکچر اور ہارڈ ویئر تیار کرتی ہیں، جیسا فائیو جی نیٹ ورکس کے لیے ہواوے۔ ایسی چینی مصنوعات کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلتاﹰ کم قیمت پر اور زیادہ قابل انحصار طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔
اس بارے میں جرمن دارالحکومت برلن کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی آئی پلائٹکس کا کہنا ہے کہ ہواوے کے پاس اس وقت دنیا کی کسی بھی دوسری کمپنی کے مقابلے میں ایسی مصنوعات کہیں زیادہ ہیں، جو فائیو جی نیٹ ورکس کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور جن کے خصوصی پیٹنٹ رائٹ صرف اسی کمپنی کے پاس ہیں۔
ادھر مغربی دنیا میں ہواوے کے بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ عالمی سطح پر فائیو جی ٹیکنالوجی کا مستقبل ہواوے ہی کے ہاتھ میں ہو گا اور ایک کمیونسٹ نظام حکومت والے چین میں اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنی بیجنگ کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن لیانگ ہوا ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان کی تردید کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی اپنے لیے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تعاون کی خواہش مند ہے۔ ان کے بقول، ''ہم تنگ ذہن نہیں ہونا چاہتے۔ ہم ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں، جہاں ہم اپنے لیے ضرورت کی ہر شے خود بنا سکیں۔ اگر آپ ہواوے کی سپلائی لائن دیکھیں، تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم عالمگیریت پر کتنا انحصار کرتے ہیں۔‘‘
کیا ہواوے ایک خطرہ ہے؟
امریکی حکام کے مطابق فائیو جی ٹیکنالوجی میں ہواوے کے قائدانہ کردار کے باعث یہ خدشہ بالکل موجود ہے کہ بیجنگ حکومت اس کمپنی کو عالمی سطح پر جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن لیانگ ہوا اس امکان کو سرے سے مسترد کرتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری کمپنی کو ماضی میں نہ تو کبھی چینی ریاست کی طرف سے ایسے احکامات ملے اور نہ ہم مستقبل میں ایسی کوئی توقع کرتے ہیں۔ لیکن اگر فرض کر بھی لیا جائے کہ بیجنگ حکومت کبھی ہمیں ایسا کرنے کے لیے کہے گی، تو یہ بات قطعی یقینی ہے کہ ہم ایسی کوئی بھی درخواست لازمی طور پر مسترد کر دیں گے۔‘‘ لیانگ ہوا کے الفاظ میں، ''ہواوے صرف تکنیکی ساز و سامان مہیا کرتی ہے۔ ہم کسی کے نیٹ ورک آپریشنز میں شریک نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمارے پاس صارفین کا کسی بھی قسم کا کوئی ڈیٹا ہوتا ہے۔‘‘
ویزلی راہن (م م / ک م)