1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا میں الیکشن، صدر ویدودو کو برتری حاصل

17 اپریل 2019

انڈونیشیا میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی غیر سرکاری نتائج کے مطابق صدر جوکو ویدودو کو مرکزی اپوزیشن پارٹی پر دس فیصد کی برتری حاصل ہے۔ تاہم اپوزیشن نے ان غیر حتمی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Gy8Y
Indonesien - Präsidentschaftswahl: Joko Widodo gibt seine Stimme ab
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Gal

خبر رساں ادارے روئٹرز نے انڈونیشیا کے الیکشن کے غیرکاری اور غیر حتمی نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر جوکو ویدودو کو اپنے حریف اور سابق فوجی جنرل پرابووو سوبیانتو پر برتری حاصل ہے۔ پولنگ کے رجحان پر نگاہ رکھنے والے چار انڈونیشی اداروں کا کہنا ہے کہ ویدودو چوّن فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ انڈونیشیا کا الیکشن کمیشن حتمی نتائج کا اعلان اگلے مہینے کرے گا۔

اپوزیشن کے صدارتی امیدوار پرابووو سوبیانتو نے بدھ 17 مارچ کو دن دارالحکومت جکارتہ میں ابتدائی نتائج پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم کے جائزوں کے مطابق وہ اگے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’میں اپنے رضاکاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہماری جیت کی حفاظت کریں۔‘‘ انہوں نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی قسم کے تشدد سے اجتناب کریں۔

دوسری طرف جوکو ویدودو نے کہا ہے کہ وہ صدارتی الیکشن کے ابتدائی نتائج سے باخبر ہیں اور پرامید ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر پانچ برس کے لیے صدر کے عہدے پر براجمان ہو سکیں گے۔ متعدد پول جائزوں کے مطابق ویدودو 55.7 فیصد ووٹ حاصل کر چکے ہیں جبکہ ان کے حریف امیدوار سوبیانتو کو44.3 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

جکارتہ میں سیاسی مبصر اور صحافی کیون او روکرکی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس الیکشن میں کون کامیاب ہو گا، یہ بات واضح ہو چکی ہے، انہوں نے اندازہ لگایا کہ جوکو ویدودو ساٹھ فیصد تک ووٹ حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرابووو سوبیانتو نے توقعات سے زیادہ اچھی کارکردگی دکھائی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان کی صحت اچھی رہی تو وہ سن دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں ایک نئی توانائی کے ساتھ حصہ لے سکیں گے۔

ویدودو کی پارٹی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے الیکشن سے قبل کہا تھا کہ اگر انہیں باون تا پچپن فیصد تک عوامی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو یہ ان کے لیے ایک اچھی پیش رفت ہو گی۔ تاہم ویدودو کی انتخابی مہم کے ایک اعلیٰ رکن کے مطابق یہ جیت واضح اور بڑی نہیں ہو گی۔ اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے روئٹرز کو بتایا، ’’یہ ایک معمولی برتری ہو گی، ایک مشکل جیت‘‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں