انڈونیشیا میں پارلیمانی انتخابات کا صدارتی الیکشن پر ممکنہ اثر
9 اپریل 2014انڈونیشیا کو دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت تصور کیا جاتا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اپوزیشن جماعت انڈونیشین ڈیموکریٹک پارٹی اسٹرگل (PDI-P) پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ انڈونیشیا میں جولائی میں ہونے والے اگلے صدارتی الیکشن میں بطور امیدوار شریک ہونے کی خواہش رکھنے والے جوکو وِدودو (Joko Widodo) کا تعلق بھی اسی پارٹی سے ہے۔ اس وقت وِدودو بھی عوام میں بہت مقبول ہیں اور ان کی کامیابی یقینی خیال کی جاتی ہے۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی انڈونیشین ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ دعویٰ ہے کہ اُس کے اراکین کا تعلق قوم پرستوں پر ہے اور یہ اِس مناسبت سے مضبوط خیالات کے حامل ہیں۔ انتخابات میں شریک سب سے مقبول سیاسی جماعت ابھی تک عوام کے سامنے ایک مکمل پالیسی یا منشور پیش نہیں کر سکی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ بہت اہم ہے کہ اگر PDI-P جیت جاتی ہے تو اُس کی حکومت کن اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے گی۔ پالیسی منشور جاری کرنے میں تاخیر کی وجوہات بھی عام نہیں کی گئی ہیں۔ صدر یدھویونو حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ہیں اور اس جماعت کو غیر مقبولیت کا سامنا ہے۔
صدارتی الیکشن میں شرکت کا ارادہ رکھنے والے جوکو وِدودو آج کل جکارتہ کے گورنر ہیں اور عوام میں بہت مقبول ہیں۔ وہ سیاستدانوں کی اُس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے صدر سہارتو کی آمریت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی تھی۔ انہی سیاستدانوں کی کوششوں سے گزشتہ سولہ برسوں سے انڈونیشیا میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ وِدودو فرنیچر کے کاروبار سے منسلک رہے ہیں۔ وہ جاوا شہر کے میئر بھی رہ چکے ہیں۔ جکارتہ شہر کی گلیوں میں انہیں اکثر دیکھا جاتا ہے اور یہ بھی اُن کی مقبولیت کا ایک اہم پہلو ہے۔
موجودہ صدر سسیلو یدھویونو بھی جکارتہ کے گورنر اور اپنی سیاسی جماعت کی حریف پارٹی کے لیڈر وِدودو کو تلقین کر چکے ہیں کہ وہ اپنی ممکنہ پالیسیوں کو بھرپور تفصیل کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کریں۔ انڈونیشیا کے موجودہ صدر رواں برس دس سال تک منصب صدارت پر فائز رہنے کے بعد اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گے۔ یدھویونو نے ان خیالات کا اظہار ملکی ٹیلی وژن پر ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ صدر یدھویونو موجودہ حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ہیں۔
جوکو وِدودو کی عُرفیت جوکووی ہے اور وہ اس نام سے زیادہ معروف ہیں۔ جب سے اُن کی سیاسی جماعت نے انہیں صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے، انہوں نے ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کی نامزدگی مارچ میں کی گئی تھی اور اُس موقع پر بھی وِدودو نے کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا تھا۔ انڈونیشین ڈیموکریٹک پارٹی اسٹرگل اور صدارتی امیدوار وِدودو کی جانب سے ایک دو روز قبل یہ بیان سامنے آیا ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے مکمل ہونے تک پالیسی سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ نتائج سامنے آنے کے بعد اس مناسبت سے میڈیا سے بات کی جائے گی۔
انڈونیشین ڈیموکریٹک پارٹی اسٹرگل کے اندرونی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ پارٹی کی صدر میگاوتی سوکارنو پتری نے دانستہ طور پر پالیسی بارے بیانات جاری کرنے کو مؤخر کر رکھا ہے۔ سوکارنو پتری بھی انڈونیشیا کی سابق صدر رہ چکی ہیں اور جوکو وِدودو کی نامزدگی میں بھی ان کی مرضی اور اختیار شامل ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وِدودو اگر صدارتی الیکشن جیت جاتے ہیں تو ملکی معاملات میں سابق خاتون صدر کا مشاورتی کردار انتہائی اہم ہو گا۔