انڈونیشیا میں چرچ نذر آتش: عوام پرامن رہیں، صدر کی تلقین
14 اکتوبر 2015جکارتہ سے بدھ چودہ اکتوبر کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق آچے انڈونیشیا کا وہ صوبہ ہے، جہاں زیادہ تر ملک کے سب سے راسخ العقیدہ مسلمان رہتے ہیں اور اسی صوبے میں کل منگل تیرہ اکتوبر کے روز نہ صرف ایک چرچ کو لگائی جانے والی آگ کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں ایک شخص ہلاک ہو گیا بلکہ سینکڑوں افراد پر مشتمل ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے ایک دوسرے گرجا گھر کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی، جسے پولیس نے ناکام بنا دیا تھا۔
جکارتہ میں انڈونیشی پولیس کے سربراہ بدرالدین حیئتی نے آج بتایا، ’’کل چرچ کو لگائی جانے والی آگ کے بعد جو ہنگامے شروع ہوئے، ان کے دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔‘‘ نیشنل پولیس چیف کے مطابق یہ حملہ مقامی مسلم آبادی کی علاقے میں مسیحی عبادت گاہوں کی موجودگی کے خلاف شکایتوں کے بعد کیا گیا۔ ان مسلمانوں کے بقول مقامی کلیساؤں میں سے اکثر کے پاس ان کے بطور مسیحی عبادت گاہوں کے استعمال کے سرکاری اجازت نامے نہیں ہیں۔
اسی دوران انڈونیشی صدر جوکو ویدودو نے آج بدھ کے روز ملکی کابینہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ’’کسی بھی معاملے کو موضوع بنا کر کی جانے والی خونریزی، خاص کر مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی بدامنی سے انڈونیشیا کے کثیر الجہتی معاشرے کو صرف نقصان ہی پہنچے گا۔‘‘
بیان کے مطابق صدر ویدودو نے ریاستی اہلکاروں کو حکم دیا کہ وہ ملک میں امن اور مذہبی ہم آہنگی بحال کرتے ہوئے تمام شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور ہر طرح کی خونریزی کو روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔‘‘
ڈی پی اے کے مطابق صوبے آچے میں حکام نے وعدہ کیا ہے کہ بغیر سرکاری اجازت ناموں کے کام کرنے والے گرجا گھروں کو بند کر دیا جائے گا جبکہ مقامی مسلم اکثریتی آبادی کے باشندے اس بات پر نالاں ہیں کہ بلا اجازت گرجا گھروں کے طور پر کام کرنے والی مسیحی عبادت گاہوں کو بند کرنے سے پہلے ان کے ذمے دار مسیحی حلقوں کے ساتھ مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں۔
انڈویشی صوبے آچے کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں جکارتہ نے اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کی دانستہ اجازت دے رکھی ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف اس اجازت کا مقصد آچے میں علیحدگی پسندی کی کوششوں کا سدباب تھا۔
آچے کی آزادی کی تحریک ’فری آچے موومنٹ‘ اور جکارتہ حکومت کے مابین 2005ء میں طے پانے والے ایک امن معاہدے کے ساتھ وہاں طویل عرصے سے جاری علیحدگی پسندوں کی اس مسلح بغاوت کا خاتمہ ہو گیا تھا، جس میں مجموعی طور پر قریب 15 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان ہلاک شدگان میں سے اکثریت عام شہریوں کی تھی۔