1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا کے اسلام پسند جکارتہ کے گورنر کے خلاف کیوں ہیں؟

تھوماس لاچان شامل شمس
19 نومبر 2016

جکارتہ کے مسیحی گورنر کو اس وقت توہین مذہب کے الزامات کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر جوکووی کے قریب ساتھی کے خلاف اسلام پسندوں کے مظاہروں کا اصل مقصد دراصل حکومت کو غیر مستحکم کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2SwJd
Demonstration Organisation Islamische Verteidigungsfront (FPI)
تصویر: Reuters

انڈونیشیائی عوام کی ایک بڑی تعداد کے لیے دارالحکومت جکارتہ کے گورنر باسوکی پورناما، جن کو آہوک کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے، ایک ترقی پسند، جمہوری اور متنوع انڈونیشیا کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ملک کے اسلام پسند ان کے خلاف ہیں۔ یہ پچاس سالہ مسیحی سیاست دان صدر جوکو ودودو، یا جوکووی، کے قریب ساتھی ہیں اور جوکووی کے سن دو ہزار چودہ میں صدر بننے کے بعد انہیں دارالحکومت کا گورنر بنایا گیا تھا۔

آہوک کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے برلن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’واچ انڈونیشیا‘ سے وابستہ ایلکس فلور کا کہنا تھا، ’’گورنر اور صدر جوکووی میں مکمل ہم آہنگی ہے۔ وہ صدر کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں‘‘

آہوک اگلے برس فروری میں جکارتہ کے گورنر کے عہدے کے لیے دوبارہ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ چند ہفتوں قبل ان کا دارالحکومت کے اس اہم ترین عہدے کے لیے منتخب ہو جانا بہت آسان دکھائی دے رہا تھا، تاہم اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔

بڑے مظاہرے

ماہرین کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ آہوک مخالفین کا نشانہ اپنی پالیسیوں کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنے مذہبی اور لسانی پس منظر کے باعث بن رہے ہیں۔ آہوک نہ صرف یہ کہ چینی نژاد ہیں بلکہ وہ مسیحی بھی ہیں۔ وہ جکارتہ کی پچاس سالہ تاریخ میں پہلے غیر مسلم گورنر ہیں۔

اسلامیوں کی جانب سے آہوک کو متعدد بار موت کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔ ان کے خلاف نومبر کی ابتدا میں مظاہرے شروع ہوئے جن کا انعقاد ’اسلامک ڈیفینڈرز فرنٹ‘ نے کیا تھا۔ ایک لاکھ کے قریب افراد مظاہروں میں شریک تھے جو کہ آہوک کے استعفے کے ساتھ ساتھ ان پر توہین مذہب کے الزام کے تحت فرد جرم عائد کرنے کا بھی مطالبہ کر رہے تھے۔

یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب آہوک نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پر تنقید کی۔ آہوک کا عوام سے کہنا تھا، ’’اگر کوئی آپ سے یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کو اس لیے مجھے ووٹ نہیں دینا چاہتے کہ مجھے ووٹ دینے سے آپ جہنم میں جا سکتے ہیں، تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔‘‘

اس بیان پر آہوک نے معافی بھی طلب کی۔ تب بھی تنازعہ ختم نہ ہوا تو انہوں نے پولیس کے سامنے اپنا بیان  بھی رقم کیا۔ رواں ہفتے انتظامیہ نے ان کے خلاف تحقیقات کا باضابطہ آغاز کر دیا۔

اگر ان کو سزا ہوئی تو انہیں گورنر کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور ساتھ ہی انہیں کئی برس قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔

Basuki Tjahaja Purnama Vizegouverneur Jakarta Indonesien
جکارتہ میں رہنے والوں کی اکثریت آہوک پر توہین مذہب کے الزام کے تحت مقدمے کے خلاف ہیںتصویر: Reuters

ایک سیاسی مقدمہ؟

سوال یہ کہ آیا اسلام پسند ہی آہوک کے خلاف مظاہروں کے پیچھے ہیں یا کچھ اور عوامل اور کردار بھی پس پردہ ان کو عہدے سے سبک دوش کروانے کے لیے سعی کر رہے ہیں؟

اس بابت فلور کہتے ہیں، ’’کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر سوسیلو یودھویونو اور حزب اختلاف کے بعض سیاست دان مظاہروں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ یودھویونو کا بیٹا جکارتہ کے گورنر کے عہدے کے لیے اگلے برس انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔

فلور کہتے ہیں، ’’مظاہرین میں سے اکثریت کی تعداد دیہی علاقوں کی ہے۔ عام طور پر ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ جکارتہ کی گورنرشپ کس کے پاس ہے۔‘‘

جکارتہ میں رہنے والوں کی اکثریت آہوک پر توہین مذہب کے الزام کے تحت مقدمے کے خلاف ہیں۔

فلور کا مزید کہنا ہے، ’’میں سمجھتا ہوں کہ گورنر پر توہین مذہب کے الزامات ثابت نہیں ہو پائیں گے۔ تاہم مقدمے کی طوالت ان کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے معذور کر سکتی ہے۔‘‘

کیا صدر جوکووی نشانہ ہیں؟

صدر جوکووی اس تمام تنازعے کے دوران خاموش دکھائی دیے ہیں۔ فلور کہتے ہیں، ’’آہوک کے خلاف مہم کا نشانہ صدر ہیں اور جوکووی یہ بات جانتے ہیں۔‘‘

Indonesien Jakarta Demonstration von Islamisten
رواں ہفتے انتظامیہ نےآہوک کے خلاف تحقیقات کا باضابطہ آغاز کر دیاتصویر: REUTERS/I. Rinaldi

انڈونیشیائی امور کے اس ماہر کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ صدر نے اب تک جکارتہ کے گورنر سے کنارہ کشی نہیں کی بلکہ انڈونیشیا کی عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ وہ الزامات کا احسن طریقے سے فیصلہ کرے گی۔

''صدر نے اپنے حالیہ دوروں میں انڈونیشیا کے تنوع کی خوب صورتی پر زور دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آہوک کے خلاف مہم کے حوالے سے خاصے فکرمند ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ صورت حال ایک بڑے سیاسی بحران کا سبب بھی بن سکتی ہے۔‘‘