اوباما انڈونیشیا میں اب بھی مقبول
31 اگست 2016باراک اوباما نے جب سن 2008 میں مسند اقتدار سنبھالی تھی تو بہت سے لوگوں نے ان سے توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ وہ نہ صرف امریکا بلکہ عالمی سیاسی منظر نامے میں مثبت تبدیلی کا باعث بن جائیں گے۔ اگرچہ اب تقریبا آٹھ برس بعد یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے تاہم انڈونیشیا میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔
انڈونیشیا میں امریکی صدر باراک اوباما ’بیری‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ بچپن میں اوباما کی عرفیت یہی تھی۔ اوباما نے چھٹے گریڈ سے دسویں گریڈ تک جکارتہ کے مین ٹینگ ایلیمینڑی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔
ساٹھ کے عشرے میں وہ اپنی والدہ اور انڈونیشی سوتیلے والد کے ساتھ انڈونیشیا میں مقیم رہے تھے۔ مین ٹینگ ایلیمینڑی اسکول میں اوباما کے کلاس فیلو سونی گونڈوکوسوما کے مطابق، ’’ہمیں اوباما سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔‘‘
اوباما اب بطور امریکی صدر ایشیا کا آخری دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ چین اور لاؤس جائیں گے لیکن انڈونیشیا نہیں۔ اوباما نے پہلی مرتبہ بطور صدر انڈونیشیا کا دورہ سن 2010 میں کیا تھا۔ تب جکارتہ میں اوباما کا انتہائی شاندار استقبال کیا گیا تھا۔
جکارتہ میں اوباما کے ہمسایہ اور سابقہ سکول فیلو سونی گونڈوکوسوما نے نیوز ایجنسی اے پی سے ماضی کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کس طرح اوباما کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اوباما انڈونیشیا کا مخصوص روایتی لباس پہن کر ان کے ساتھ نماز بھی ادا کرتے تھے، ’’آغاز میں ہمیں توقع تھی کہ بیری (اوباما) ایک تبدیلی لے آئیں گے۔ لیکن اب ایمانداری سے بات کی جائے تو وہ ہمارے ملک کے لیے کوئی خاص کام نہیں کر سکے۔‘‘
اوباما کے ایک اور سابقہ انڈونیشی کلاس فیلو ودیانتو کاہیانو کے مطابق ابتدائی طور پر ان کا خیال تھا کہ پچپن میں دوستوں کی قربت کی وجہ سے اسلام سے ان کا جذباتی تعلق اور ایک مسلمان سوتیلے باپ کی تربیت کے باعث وہ دنیا کو برداشت و رواداری کا ایک نمونہ بنا دیں گے۔ لیکن کاہیانو کا خیال ہے کہ انہوں نے اوباما سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ انہوں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اوباما کے دور اقتدار میں کچھ تبدیلی نہیں آئی ہے۔
تاہم دوسری طرف اوباما اور انڈونیشیا کے مابین ابھی تک ایک تعلق بھی نظر آتا ہے۔ چوتھی کلاس میں اوباما کے ساتھ بیٹھے والے کاہیانو نے کہا، ’’اوباما کے حوالے سے انڈونیشیا میں ایک احساس تفاخر پایا جاتا ہے، وہ ہمارے لیے بہت خاص ہیں۔‘‘
مین ٹینگ اسکول میں پچپن کے اوباما کا ایک مجسمہ نصب کر دیا گیا ہے۔ اسی اسکول میں تیسری جماعت کے ایک اسٹوڈنٹ منتاری مالارنگینگ کے مطابق اوباما اس کے لیے ایک مثال ہیں، ’’میں نے اپنی دادی سے سنا تھا کہ اوباما بہت اچھے اسٹوڈنٹ تھے۔ وہ جب بات کرتے تھے تو ان میں اعتماد کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔
اس اسکول کے ایک اور طالبعلم عبداللہ کردی نے بتایا کہ وہ بھی اوباما کی طرح صدر بننا چاہتے ہیں، ’’مجھے ان پر فخر ہے۔‘‘ اس اسکول کے پرنسپل عدی کوسیانٹا کے مطابق ہر ماہ چالیس تا ساٹھ سیاح اس اسکول کا رخ کرتے ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ باراک اوباما کہاں بیٹھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سن 2010 میں نصب کیا گیا نو عمر اوباما کا مجسمہ ہمیشہ اس اسکول کی زینت رہے گا۔ انہیں توقع ہے کہ اوباما اپنی مدت صدرات مکمل کرنے کے بعد اس اسکول کا دورہ ضرور کریں گے۔