اوباما اور یورپی رہنما یوکرائن کے بحران پر غور کریں گے
15 نومبر 2014یورپی رہنما آسٹریلیا کے شہر برسبین میں جی ٹوئنٹی کے اپنے دیگر ہم منصب لیڈروں کے ساتھ اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ تاہم اس دوران وہ ایک علیحدہ نشست میں امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ یوکرائن کے بحران پر بھی غور کریں گے۔ یہ ملاقات اتوار کو ہو گی۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اوباما اور یورپی رہنما اس موضوع پر ایسے وقت تبادلہ خیال کرنے جا رہے ہیں جب یورپی یونین کی جانب سے ماسکو حکومت پر مزید پابندیوں کا فیصلہ بھی متوقع ہے۔
یورپی یونین کے صدر ہیرمان فان رومپوئے بھی برسبین میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ گو یوکرائن کا موضوع ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے اس گروپ کے اجلاس کے ایجنڈے پر نہیں ہے لیکن اوباما اور یورپی رہنما برسبین میں ملاقات کے دوران اس پر بات چیت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہم پابندیوں سمیت اپنے اخیتار میں موجود ہر سفارتی حربے کا استعمال جاری رکھیں گے۔‘‘
انہوں نے ہفتے کو برسبین میں صحافیوں سے بات چیت میں مزید کہا: ’’یورپی یونین کے وزرائے خارجہ پیر کو صورت حال کا جائزہ لیں گے اور مزید ممکنہ اقدامات پر بات کریں گے۔‘‘ ہیرمان فان رومپوئے نے کہا: ’’ہمیں ایک بھرپور تنازعے کے مقام پر لوٹنے سے بچنا ہو گا۔‘‘
انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ فائربندی معاہدے کا احترام کریں جو مِنسک (بیلاروس) میں ستمبر میں یوکرائنی باغیوں اور یوکرائن کی حکومت کے درمیان طے پایا تھا۔ یورپی یونین کے صدر نے کہا کہ روس کو باغیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ یوکرائنی باغی مِنسک معاہدے کی پاسداری کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ماسکو حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے ہاں سے ہتھیاروں اور فوجیوں کی یوکرائن میں منتقلی روکے اور پہلے سے مشرقی یوکرائن میں موجود اپنے فوجیوں کو واپس بلائے۔
اسی دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی ایسا ہی ایک بیان دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق جان کیری نے علیحدگی پسندوں کے لیے روس کی بڑھتی ہوئی حمایت پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران اس مِنسک معاہدے کے نفاذ پر زور دیا، جس میں فائر بندی، سرحدی نگرانی، یرغمالیوں کی رہائی اور مذاکرات کی میز پر واپسی پر زور دیا گیا ہے۔