اوباما نے ’سٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں کیا کہا؟
28 جنوری 2010اوباما نے تسلیم کیا کہ بہت سے امریکیوں کے لئے حالات مطلوبہ رفتار سے نہیں بدلے ہیں اور اس وجہ سے بعض لوگوں کا غصہ بجا ہے۔
امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر نے اس خطاب میں کہا:’’آج شام میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہم کمیونیٹی بینکس کے ذریعے تیس ارب ڈالر کی خطیر رقم کا استعمال کرکے چھوٹے کاروباری اداروں کی مدد کریں اور قرضے فراہم کرکے انہیں دیوالیہ ہونے سے بچائیں۔‘‘
اوباما نے کہا کہ تمام تر سیاسی مشکلات کے باوجود وہ پُرامید ہیں کہ امریکہ دنیا میں اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھے گا۔’’میں کسی بھی صورت امریکہ کے لئے دوسری پوزیشن تسلیم نہیں کروں گا۔‘‘ اوباما نے چین، جرمنی اور بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تینوں ملک آرام نہیں کر رہے ہیں بلکہ تیز رفتار ترقی کر رہے ہیں۔
’’چین اپنی معیشت کو پٹری پر لانے کے لئے انتظار نہیں کر رہا، جرمنی انتظار نہیں کر رہا، بھارت بھی انتظار میں نہیں ہے۔ یہ ملک بیٹھے نہیں ہیں۔ یہ ملک اپنی زیادہ تر توجہ ریاضی اور نئی سائنسی تحقیق پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ یہ ملک بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں بھی مصروف ہیں اور صاف توانائی کے شعبے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ امریکہ آرام سے نہیں بیٹھے گا۔‘‘
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ داخلی سطح پر متعدد چیلنجز اور مشکلات کے باوجود امریکی یونین مضبوط ہے۔’’ہم ہار نہیں مانتے اور مایوس نہیں ہوتے۔ ہم خوف اور تقسیم یا انتشار کو اپنے جذبے پر حاوی ہونے نہیں دیتے۔ میں پُر امید ہوں کہ ہم کامیابی سے تمام چیلنجز کا مقابلہ کریں گے۔‘‘
اوباما کی تقریر کا فوکس صحت اور اقتصادیات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات تھا۔ تاہم امریکی صدر نے ملک کی سلامتی کی اہمیت کا بھی بخوبی تذکرہ کیا۔’’مجھے معلوم ہے کہ نائن الیون کے حملوں نے ہمیں متحد کیا لیکن بدقستی سے اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے لئے کون ذمہ دار ہیں، بہرکیف میں الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘
اوباما نے مزید کہا کہ انہیں اس بات پر پختہ یقین ہے کہ امریکی شہری اپنے وطن سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔’’ہم سب کو اپنے وطن سے پیار ہے۔ ہم اپنے ملک کی حفاظت سے متعلق سنجیدہ ہیں۔ تو پھر ایک دوسرے پر اسکول کے بچوں کی طرح تانے بازی سے پرہیز کریں۔ ہم سب مل کر امریکہ سمیت پوری دنیا کا مستقبل بہتر بنائیں۔‘‘
عراق کا ذکر کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ القاعدہ کے خلاف لڑائی جاری ہے تاہم امریکی افواج ذمہ داری کے ساتھ وہاں سے واپس آرہی ہے۔’’میں نے وعدہ کیا تھا کہ عراق جنگ کا خاتمہ کروں گا، امریکی صدر کی حیثیت سے میں اپنے اسی وعدے کو پورا کر رہا ہوں۔‘‘ باراک اوباما نے کہا کہ اس سال اگست تک عراق میں تعینات تمام امریکی کمبیٹ فوجی وطن لوٹ آئیں گے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: شادی خان سیف