اوباما کا تاریخی دورہ کیوبا، پرجوش استقبال
21 مارچ 2016خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما کا یہ دورہ انتہائی تاریخی ہے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے کشیدہ تعلقات میں کمی اور تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سرد جنگ کے دور کے ان سخت دشمن ممالک کے درمیان کئی دہائیوں تک سفارتی تعلقات اور باہمی اقتصادی سرگرمیاں بند رہیں، تاہم گزشتہ برس ہی دونوں ممالک نے ایک مرتبہ پھر سفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا۔
باراک اوباما گزشتہ 88 برسوں میں کیوبا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں۔ دسمبر 2014ء میں صدر اوباما اور کیوبا کے صدر راؤل کاسترو کے درمیان ملاقات میں تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات سن 1959ء میں کیوبا میں آنے والے کمیونسٹ انقلاب اور وہاں امریکا نواز حکومت کے خاتمے کے بعد منقطع ہو گئے تھے۔
اتوار کی سہ پہر کیوبا پہنچنے پر صدر اوباما نے وہاں حال ہی میں کھلنے والے امریکی سفارت خانے کے عملے سے ایک ہوٹل میں بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ ہم کیوبا کے عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کر سکیں۔‘‘
ہوانا شہر کے وسطی حصے کی طرف جب اوباما کا قافلہ بڑھا تو متعدد افراد نے اپنے گھروں کی بالکونیوں سے موٹرسائیکلوں کے حصار میں صدر اوباما کی گاڑی کو دیکھا۔ اس موقع پر چند افراد نے ’ویوا اوباما اور ویوا کاسترو‘ کے نعرے بھی لگائے۔
صدر اوباما نے امریکا کی ایک طویل المدتی پالیسی، جس کا مقصد کیوبا کو زیادہ سے زیادہ تنہا کرنا تھا، کو تبدیل کر دیا ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ ایک ایسی پالیسی بنا دیں، جو ان کے بعد بھی قائم رہے، چاہے آئندہ انتخابات میں ریپبلکن جماعت ہی کا امیدوار کیوں نہ نیا امریکی صدر منتخب ہو جائے۔ امریکا میں رواں برس آٹھ نومبر کو عام انتخابات ہونا ہیں، جن میں ممکنہ طور پر ریپبلکن جماعت کی جانب سے سخت گیر موقف کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ بطور امیدوار سامنے آ سکتے ہیں جب کہ ان کے مدمقابل ممکنہ طور پر ہلیری کلنٹن ہو سکتی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مکمل بحالی کی راہ میں اب بھی کئی طرح کی مشکلات حائل ہیں۔ صدر اوباما کے ناقدین اس دورے کو ’جلدبازی‘ قرار دے رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کے اس دورے کے ذریعے کیوبا میں انسانی حقوق میں بہتری اور اقتصادی آزادی کے حوالے سے کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔