اوباما کی مطلق العنان حکمرانوں کو تنبیہ
16 فروری 2011تیونس میں برپا ہونے والے انقلابِ یاسمین اور مصر کے سفید انقلاب کے بعد امریکی صدر نے پہلی مرتبہ کسی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ واشنگٹن منعقدہ اس پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے ایرانی مظاہرین کے ساتھ بھی یکجہتی کا اظہار کیا۔
صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ میں کئی عشروں سے امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والے حکمرانوں پر تنقید اور جمہوریت کے حامی مظاہرین کی حمایت کے درمیان نازک توازن قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ’’ ہم نے خطے میں اپنے اتحادیوں کو پیغام بھجوادیا ہے کہ وہ مصر کی مثال سے سبق سیکھیں اور ایران کی مثال کی مخالفت کریں۔‘‘ ان کا اشارہ 79ء کے ایرانی انقلاب کی جانب تھا، جس کے سبب سخت گیر نظریات کی حامل قوتیں برسر اقتدار آئیں۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کسی ریاست کا نام نہیں لیا۔ تیونس اور مصرکے بعد الجزائر، بحرین اور یمن میں بے چینی کے آثار بڑھ رہے ہیں۔ اسڑیٹیجک امور کے ماہرین امریکہ کے مضبوط اتحادیوں اردن اور سعودی عرب کے استحکام کو خطرات میں گھرا دیکھ رہے ہیں۔
امریکی صدر کے بقول تیونس میں مظاہروں کے آغاز سے قبل ہی اتحادیوں اور حریفوں پر عیاں کردیا گیا تھا کہ دنیا بدل رہی ہے۔ ان کے بقول انٹرنیٹ اور موبائل کی جدید دنیا میں اب عوامی آواز کو دبانے کی کوششیں بے سود ہیں۔
اپنی پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی پرجوش نوجوان نسل نئے امکانات کی متلاشی ہے۔ مصری فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ وہ مصر کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت نہیں کرنا چاہتے ۔
ایران میں مظاہرین کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ایرانی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ مظاہرین کی محض اخلاقی حمایت کر رہا ہے۔
امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ مشرق وسطیٰ میں موجودہ صورتحال سے اسرائیل فلسطین امن معاہدے کی راہ میں نئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے امید ظاہر کی کہ خطے میں تبدیلی کی یہ نئی لہر دور رس فوائد کی بنیاد بن سکتی ہے۔
اوباما کے بقول ایسے نوجوان جو التحریر چوک میں جمع تھے، ان میں اپنا ملک سنوارنے کی امنگ تھی اور انہوں نے اپنے غصے کا رخ مغرب یا اسرائیل کی جانب نہیں کیا، جو اچھی بات ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عدنان اسحاق