1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی ٹرمپ پر سخت تنقید

8 ستمبر 2018

سابق امريکی صد باراک اوباما نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محکمہ انصاف پر دباؤ ڈالنے کے عمل اور ان کی متنازعہ پاليسيوں پر سخت تنقيد کی ہے۔ امريکا ميں ’مڈ ٹرم‘ اليکشن کا انعقاد دو ماہ بعد ہونے والا ہے۔

https://p.dw.com/p/34Wpn
Ex-US-Präsident Barack Obama spricht in University of Illinois
تصویر: Reuters/J. Gress

سابق امريکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ خوف کی سياست، ايک گروپ کو کسی دوسرے کے خلاف کرنا اور عوام کو يہ بتانا کہ مختلف دکھنے، بولنے اور عبادت کرنے والے لوگوں کی وجہ سے سلامتی کی صورت حال ميں خرابی ہے، کافی پرانی حکمت عملی ہے۔ سابق صدر کے بقول ايک صحت مند جمہوريت ميں ايسے ہتھکنڈے کارآمد ثابت نہيں ہوتے۔ اوباما نے موجودہ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے يہ تنقيد يونيورسٹی آف ایلينوئے ميں اپنی تقرير کے دوران کی۔

سابق امريکی صدر نے يہ تنقيد ايک ايسے موقع پر کی ہے، جب قريب دو ماہ بعد امريکا ميں ’مڈ ٹرم‘ اليکشن ہونے والے ہيں۔ يہ انتخابات بطور ملکی صدر ٹرمپ کے مستقبل کے حوالے سے کافی اہم ہيں۔

اس تقرير کے دوران اوباما نے يہ بھی کہا کہ جس اقتصادی ترقی کی ٹرمپ کافی بڑھ چڑھ کر باتيں کرتے ہيں اور خود کو اس کا ذمہ دار قرار ديتے ہيں، وہ در اصل اوباما کے دور سے شروع ہوئی تھی۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے اوباما کی تنقيد کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ وہ تقرير کے دوران سو گئے تھے۔ انہوں نے اپنی سياسی مہم کے دوران شمالی ڈکوٹہ کے شہر فارگو ميں يہ بيان ديا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اوباما ملک ميں ہونے والی ترقی کا ذمہ دار خود کو قرار دينے کی کوشش کر رہے ہيں۔

سابق صدر اوباما نے موجودہ صدر ٹرمپ کی ورجيننا ميں گزشتہ برس ہونے والے پر تشدد واقعات پر رد عمل کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا۔ انہوں نے کہا، ’’ہميں امتيازی سلوک اور نسل پرستی کے خلاف کھڑا ہونا چاہيے۔ يہ بھی ضروری ہے کہ ہم نازيوں کے ساتھ ہمدری رکھنے والوں کے خلاف کھڑے ہوں۔ نازی غلط تھے، صرف يہ کہنا کتنا مشکل کام ہے؟‘‘

’مڈ ٹرم‘ اليکشن کے سلسلے ميں باراک اوباما آئندہ چند ہفتوں کے دوران سياسی طور پر کافی سرگرم رہيں گے۔ وہ ملک کے مختلف حصوں ميں ڈيموکريٹ سياستدانوں کی حمايت ميں نکالی جانے والی ريليوں ميں شرکت کريں گے۔ ٹرمپ پر ان کی يہ تازہ تنقيد اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ان تقاريب اور ريليوں ميں وہ کون سے نکات اٹھائيں گے۔

ع س / اا، نيوز ايجنسياں