اوبر، کریم اور اے ون ٹیکسی سروسز پر پابندی کیوں؟
1 فروری 2017پنجاب میں اوبر، کریم اور اے ون سروسز پر منگل اکتیس جنوری کے روز لگائی گئی پابندی اور صوبہ سندھ میں بھی ایسی ہی پابندی کی سفارش کے بعد سے ان کمپنیوں کے ہزاروں ڈرائیور اور صارفین ابھی تک اس بارے میں غیر واضح صورت حال کا شکار نظر آ رہے ہیں کہ آخر یہ پابندی لگائی کیوں گئی۔
اکتیس جنوری کے روز ان نجی ٹیکسی سروس کمپنیوں پر لگائی جانے والی پابندی کے حوالے سے صوبہ سندھ کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے سیکرٹری طحٰہ فاروقی سے جب رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کریم اور اوبر جیسی کمپنیوں کو تین طرح کی این او سی دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ گاڑیوں کو کمرشل کاموں کے لیے استعمال کرنے کے لیے فی گاڑی سالانہ ڈیڑھ سو روپے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ میں جمع کرانا پڑتے ہیں اور اس کے بعد ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے متعلقہ گاڑی کے فٹنس سرٹیفیکیٹ کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد ہی ان کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
پاکستان انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین عمر سیف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے ان کمپنیوں کے نمائندوں سے مشاورت کی ہے اور ان کمپنیوں کو نئے ٹیکس نظام کے تحت رجسٹر کروانا لازمی ہو گا، تا کہ ان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جا سکے، جو اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کمپنیوں کا ریگولیٹ کیا جانا اشد ضروری ہے۔
اس حوالے سے کریم ٹیکسی سروس کے مینیجنگ ڈائریکٹر جنید اقبال نے میڈیا کو بتایا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ان کی ٹیم کی پنجاب میں انتظامیہ کے ساتھ ملاقاتیں جاری ہیں۔ جنید اقبال نے یہ شکایت بھی کی کہ اس مسئلے کو غیر ضروری طور پر اچھالا جا رہا ہے جبکہ قانونی تقاضے با آسانی قوانین میں ترامیم کر کے پورے کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ سے درخواست کی کہ حکومتی محکمے مل بیٹھ کر اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے میں مدد کریں۔
جنید اقبال کے مطابق، ’’اس سروس کا مقصد ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ ہے اور ہم حکومت کو ٹیکس دینے اور باقی سارے قانونی تقاضے پورے کرنے پر بھی ظاہر ہے تیار ہیں۔‘‘
اسلام آباد کے سیکٹر جی تیرہ کی چھتیس سالہ رہائشی یاسمین پروین راولپنڈی اسلام آباد کی پہلی اور واحد خاتون ہیں جو کریم کے لیے بطور وینڈر اور ڈرائیور کام کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ سروس نہ صرف شہریوں کے لیے سستی اور محفوظ ہے بلکہ عام شہریوں اور خاص طور پر خواتین کے لیے بہترین ذریعہ معاش بھی ہے۔
یاسمین پروین نے کہا، ''اگر کوئی خاتون ٹیکسی چلاتی ہے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ عورت ٹیکسی چلا رہی ہے جبکہ اپنی پرائیویٹ گاڑی چلانے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ فیملی کے ساتھ کہیں جا رہے ہیں۔ حکومت کو تو پابندیاں لگانے کے بجائے سہولیات فراہم کرنی چاہییں۔‘‘
کریم ٹیکسی سروس اس عارضی بندش سے پہلے ایمرجنسی ڈاکٹر سروس کی سہولت بھی متعارف کرانے والی تھی اور گزشتہ ہفتے دو دنوں تک اس بارے میں ایک ٹیسٹ پراجیکٹ پر کام بھی ہوا تھا۔
اوبر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور شاہد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب ان موبائل کمپنیوں کا آغاز ہوا تھا تو تب یہ سارے تحفظات کیوں ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔ یہ سارا ڈرامہ ترکی کی پیلی ٹیکسیوں کے کاروبار کو بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جب پوری شناخت اور جانچ پڑتال کے بعد ہمیں ہائر کیا جاتا ہے تو پھر سکیورٹی رسک کیسا؟‘‘
راولپنڈی کی رہائشی ڈاکٹر غزالہ محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے انہیں گھر سے نکل کر ٹیکسی ڈھونڈنا پڑتی تھی۔ پاکستان میں جو روایتی ٹیکسیاں ہیں وہ بیس پچیس سال پرانی ہوتی ہیں اور آرام دہ بھی نہیں ہوتیں۔ ڈرائیور اکثر سگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ ٹیکسیوں میں عجیب سے گانے بجائے جاتے ہیں اور سکیورٹی رسک الگ جبکہ کرایہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر غزالہ محمود نے بتایا، ’’اسی لیے اوبر اور کریم نے تو ہماری زندگی آسان کر دی ہے۔ اب رات دیر سے کہیں جاتے ہوئے ڈر نہیں لگتا اور یہ سروس آٹھ سے نو روپے فی کلو میٹر چارج کرتی ہے جو بس کے کرائے حتیٰ کہ اپنی گاڑی کے استعمال سے بھی سستی پڑتی ہے۔ حکومت کو ان پابندیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنانا چاہیے۔‘‘
پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اوبر پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن اس کی وجہ وہاں چند خواتین صارفین پر کیے جانے والے مجرمانہ اور جنسی حملے تھے۔ پاکستان میں تاہم ایسا اب تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اسی لیے صارفین پریشان ہیں کہ حکومت نے یہ پابندی کیوں لگائی؟
چند ماہرین اس اقدام کو مبینہ طور پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مفادات کے بالواسطہ تحفظ کی کوشش کا نام بھی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم مجموعی طور پر عشروں سے بدحالی کا شکار ہے جبکہ کئی شہروں میں اوبر اور کریم جیسی سروسز کی وجہ سے عام شہریوں کا مقامی سطح پر آمد و رفت سے متعلق درد سر بہت کم ہو گیا تھا۔