اور کتنی زینبیں سماجی، سیاسی زبوں حالی کی بھینٹ چڑھیں گی؟
11 جنوری 2018ہر تھوڑے دنوں بعد ایک نہ ایک معصوم کی لاش یہ کہہ کر دفنا دی جاتی ہے کہ پورا ’ملک اور قوم سکتے میں‘ ہیں۔ حکومت متاثرہ خاندان سے وعدہ کرتی ہے کہ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور والدین صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ قصور شہر کی رہائشی آٹھ سالہ زینب تو پانچ روز تک لاپتہ رہی۔ وحشیانہ اور درندہ صفت سلوک کا نشانہ بنا کر اس نازک سی کلی کو مسل دینے والے مجرم کو بے نقاب کر کے اُسے سزا دینے کا مطالبہ کرنے والوں پر گولی چلائی گئی اور اس فائرنگ میں مزید جانیں ضائع ہوئیں۔
زینب کی تدفین کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف قصور پہنچے اور مقتولہ کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے مجرموں کی جلد گرفتاری کا یقین دلایا۔ کوئی شہباز شریف صاحب سے یہ تو پوچھے کہ پنجاب میں کیا ایسا پہلی بار ہوا ہے؟ انہوں نے زینب کے والدین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئےکہا، ’’جب تک میں آپ کو انصاف نہیں دلواتا، میں سکون سے نہیں بیٹھوں گا اور یہ میرا فرض ہے۔‘‘ کیا یہ بیان بہت مضحکہ خیز اور معیوب نہیں؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے فرائض کا احساس زینب کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر مظاہروں کی آگ بھڑکنے کے بعد ہی کیوں ہوا؟
زینب کا ریپ اور قتل ایک سیاسی ہتھکنڈہ
آٹھ سالہ زینب اپنے والدین کے آنگن کو ہمیشہ کے لیے ویران تو کر گئی مگر اس کے وحشیانہ قتل کے بعد تمام تر سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف ’پوائنٹ اسکور کرنے‘ کا بہترین موقع ہاتھ آ گیا۔ زینب کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کرنے والے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے فوراً سانحہ ماڈل ٹاؤن کا حوالہ دیا اور ایک بار پھر عوامی توجہ اپنے سیاسی ایجنڈے پر مرکوز کرانے کی کوشش کی۔ برطرف کر دیے گئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز صرف اتنا ہی کہہ پائیں، ’’دعا گو ہوں کہ مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر شریف خاندان کی کسی بچی کے ساتھ ایسا ہوتا، تو کیا مریم نواز پھر بھی بس اتنا ہی کہ پاتیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے صوبائی وزیر اعلیٰ شہباز شریف پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے کہا کہ صبح ساڑھے چار بجے قصور پہنچ کر زینب کے والدین سے ملنے کا مقصد اپنی نا اہلی کو چھپاتے ہوئے عوام کی تنقید سے بچنا تھا۔ عمران خان نے پنجاب حکومت اور مسلم لیگ ن کی سیاسی ناکامیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ پنجاب پولیس میں نہ صرف نااہل اہلکاروں بلکہ مجرموں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے ملکی چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سانحے کا از خود نوٹس لیں۔
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت اسلامی نے قصور میں اس سانحے کے بارے میں ایک تحریک التوا قومی اسمبلی میں جمع کرائی اور اسی شہر میں پہلے بھی کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رونما ہونے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی طرف سے اس بارے میں کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے جانے پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے سے پہلے اسے اغوا کیا گیا تھا لیکن بازیاب نہ کرایا گیا۔
پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر چوٹی کے عہدیداروں کی طرف سے بھی پنجاب میں بچوں کے خلاف ایسے گھناؤنے جرائم کا بالواسطہ ذمہ دار شہباز شریف حکومت کو ہی ٹھہرایا گیا۔
اور تو اور خادم رضوی کی تحریک لبیک یا رسول اللہ کے مشتعل کارکن بھی قصور پہنچ گئے، جہاں انہوں نے دھواں دار تقاریر کیں اور پہلے سے جاری اشتعال انگیزی میں پوری طرح شامل ہو گئے۔
اسی طرح پاکستانی فوج کے سربراہ قمر باجوہ کی طرف سے بھی سول حکومت کو لاء اینڈ آرڈر اور بچوں کی حفاظت کے طریقوں کو مؤثر بنانے کے لیے فوج کی طرف سے تمام تر تعاون کا یقین دلایا گیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس سانحے کا نوٹس لیا۔
یہ سب کچھ اب ہی کیوں؟ جب ایک آنگن ویران ہو چکا۔ ایک ماں جیتے جی مر چکی اور ایک باپ کو صبر کے بہت تکلیف دہ امتحان کا سامنا ہے۔
سیاست دان اور ادارے تب کہاں تھے؟
قصور پولیس کا کہنا ہے کہ زینب کے ریپ اور قتل سے پہلے بھی کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور انہیں قتل کر دینے کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ان سب جرائم کے پیچھے ایک ہی مجرم کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔ قریب دو سو پولیس افسران اس مجرم کی تلاش میں ہیں۔ قصور پولیس کے مطابق اب تک سی سی ٹی وی کی تیرہ فوٹیجز حاصل کی جا چکی ہیں تاہم زینب کے قاتل کی حتمی نشاندہی نہیں ہو سکی۔
بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم این جی او ساحل کے مطابق جولائی 2016 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گزشتہ برس پاکستان میں روزانہ 10 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تب سے اب تک پاکستان میں ایسے تین ہزار تین سو اٹھہتر جرائم رپورٹ کیے گئے۔ اس غیر سرکاری تنظیم کے اندازوں کے مطابق 2014 ء کے مقابلے میں بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت بے حس ہو گئی ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ایک دوسرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی ہتھکنڈہ چاہیے، چاہے وہ بچوں سے جنسی زیادتی جیسا تکلیف دہ معاشرتی مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔ کیا یہ ناگزیر ہے کہ اصحاب حکم کی بے حسی کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر بار کسی نہ کسی زینب ہی کو اپنی عصمت و جاں کی قربانی دینا پڑے؟