اوسلو معاہدہ، غزہ کی امید جو چور چور ہو گئی
12 ستمبر 2023اوسلو معاہدے میں ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم برسوں سے جمود کا شکار امن مذاکرات اور خونریز تشدد نے فلسطینی تنازعے کے کسی پرامن حل کی امیدوں کے خواب کو تعبیر سے بہت دور کر دیا ہے۔ محاصرہ زدہ غزہ پٹی کی 20 سالہ نوجوان طالبہ ایمان حسنہ کے مطابق، ''اوسلو معاہدے نے ہمارے خواب، ہمارا مستقبل اور ہماری امیدیں توڑ دیں۔‘‘
آباد کاری پر عارضی پابندی، اسرائیل کی مشروط پیشکش
اسرائیل اور غزہ کے عسکریت پسندوں کے درمیان غیر مستحکم جنگ بندی
اس معاہدے کے وقت حسنہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ تب فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے سربراہ یاسر عرفات کئی ماہ کی جلاوطنی کے بعد غزہ واپس لوٹے تھے۔
تیرہ ستمبر 1993 کو واشنگٹن میں اس معاہدے پر دستخطوں کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اس معاہدے کے تحت عبوری طور پر فلسطینی انتظامیہ کو کسی حد تک حکمرانی ملی تھی تاہم یہ اختیارات کبھی بھی اس تنازعے کے حتمی حل جیسے وسیع نہیں ہو سکے۔ بائیس سالہ آدم عبداللہ کے مطابق، '' اس سے نئی نسل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘
ایک اور بیس سالہ طالب علم احمد العبداللہ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں جو کچھ بھی ہے، وہ کاغذ پر سیاسی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
جولائی 1994 میں مصطفیٰ السنونویاسر عرفات کے ہمراہ غزہ پہنچے تھے۔ انہیں تب فلسطینی صدارتی محافظوں کا کمانڈر قرار دیا گیا تھا۔ السنونو کے مطابق، ''ہم نے سوچا تھا کہ ہمارا ملک سنگاپور کی طرح ہو جائے گا۔ کھلی سڑکیں، ہمارے بچوں کے لیے کام کے مواقع، ایک حکومت، ایک ہوائی اڈہ، ایک بندرگاہ اور ایک پاسپورٹ۔ تب ہمیں لگا تھا کہ ریاست کی تعمیر دور نہیں۔‘‘
غزہ ایک تنگ سی ساحلی پٹی ہے، جہاں اس وقت دو اعشاریہ تین ملین انسان رہتے ہیں۔ تاہم سن 2007 میں غزہ کا انتظام حماس کے پاس چلے جانے کے بعد اسرائیل نے اس کا بری اور بحری محاصرہ کر لیا تھا، جو آج تک قائم ہے۔
اس علاقے میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 70 فیصد ہے جب کہ عام افراد کو پینے کے صاف پانی تک عدم رسائی اور بجلی کی بندش جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
سن انیس سو اٹھانوے میں فلسطینیوں نے غزہ میں پہلے ہوائی اڈے کے افتتاح پر جشن منایا تھا تاہم سن 2001 میں دوسری فلسطینی انتفادہ کے دوران اسرائیلی فورسز نے اسے تباہ کر دیا تھا۔
ع ت / ش ر، م م (اے ایف پی)