1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’اوشی ڈوئچ: دی جی ڈی آر چلڈرن آف نمیبیا‘‘

افسر اعوان22 اپریل 2016

1980ء کی دہائی میں اُس وقت آزادی کے لیے جاری جدوجہد کے دوران نمیبیا کے 400 بچوں کو سابق مشرقی جرمنی بھیجا گیا تھا۔ ان تین برس تک کے بچوں کو بھیجنے کا مقصد انہیں ماڈل کیمونسٹ اور نمیبیا کی اشرافیہ کے طور پر تیاری تھا۔

https://p.dw.com/p/1Ib3h
تصویر: baslerafrika.ch/Evelyn Annuss/Justina Amadhia

ان چار سو بچوں میں بہت سے یتیم بچے بھی شامل تھے اور ایسے بھی جو انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ ان بچوں کو نمیبیا کی سوویت حمایت یافتہ آزادی کی جنگ لڑنے والی تنظیم سواپو Swapo اور اس وقت کے مشرقی جرمنی کی حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت اس کمیونسٹ ملک میں بھیجا گیا تھا۔ تاہم 1989ء میں دیوار برلن گرنے اور سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام کے بعد ان بچوں کو واپس نمیبیا بھیج دیا گیا تھا۔ ان بچوں کے ساتھ کیا حالات و واقعات پیش آئے اس بارے میں ایک اسٹیج ڈرامہ تیار کیا گیا ہے جسے ’’اوشی ڈوئچ: دی جی ڈی آر چلڈرن آف نمیبیا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

تاہم چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ سوال ابھی تک قائم ہے کہ ان بچوں کے لیے جنہیں اپنے والدین اور دوستوں سے دور کر دیا گیا تھا، کیا یہ فیصلہ ان کے حق میں بہتر تھا یا انہیں اس کا نقصان ہوا۔ 43 سالہ لوسیا انگومبے کہتی ہیں، ’’میرے لیے یہ میری زندگی بچانا تھا‘‘۔ انگومبے کو زمیبیا کے قریب واقع ایک کیمپ سے اُس وقت چُنا گیا تھا جب ان کی عمر صرف چھ برس تھی۔ انگومبے کہتی ہیں، ’’یہاں تک کہ میں ایک بچی کے طور پر بھی اس بات کو سمجھتی تھی۔‘‘

نمیبیا کے یہ نوعمر سیاہ فام بچے مشرقی جرمنی کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک اسکول کے طالب علم تھے جہاں انہیں حساب، بائیالوجی اور دیگر اسباق میں بھی سخت گیر کمیونزم کا درس دیا جاتا۔ اُس وقت نمیبیا جو سابق جرمن کالونی رہ چکا تھا، جنوبی افریقہ کے قبضے میں تھا۔

سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام کے بعد ان بچوں کو واپس نمیبیا بھیج دیا گیا تھا
سابقہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام کے بعد ان بچوں کو واپس نمیبیا بھیج دیا گیا تھاتصویر: imago/Mint Images

سواپو تحریک اور جنوبی افریقہ کی نسلی عصبیت پر مبنی حکومت کے درمیان جنگ چھڑنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں نمیبیا کے باشندوں کو ہمسایہ ممالک انگولا اور زیمبیا کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ انگومبے نے یاد کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے معلوم تھا کہ زیمبیا ہمارے لیے اچھا نہیں تھا کیونکہ وہاں جنگ تھی۔‘‘

جب انگومبے اور دیگر بچے سابق مشرقی جرمنی پہنچے تو انہیں بیلِن کے ایک محل میں رکھا گیا تھا۔ جرمن اور نمیبیا کے اساتذہ کے زیر نگرانی انہوں نے جرمن زبان سیکھی جبکہ انہیں دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی تعلیم بھی دی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہاں پر انہیں جو کچھ سکھایا گیا اس حوالے سے وہ خود کو بہت مراعات یافتہ سمجھتی ہیں: ’’اس نظام تعلیم نے زندگی کے لیے ضروری تمام چیزیں سکھائیں، سخت محنت، وقت کی پابندی، اپنے ملک کے لیے اٹھ کھڑا ہونا اور دیانتدار رہنا جیسے اہم اقدار سکھائے گئے۔‘‘

’’اوشی ڈوئچ: دی جی ڈی آر چلڈرن آف نمیبیا‘‘ نامی یہ اسٹیج ڈرامہ جرمنی اور نمیبیا میں پیش کیا جائے گا۔