اونٹ کا گوشت: آسٹریلیا بڑا برآمد کنندہ بن سکتا ہے
19 اپریل 2011Magdy El Ashram نے جنوبی آسٹریلیا میں ایک مذبحہ خانہ کھولنے کے لیے وہاں کی مقامی حکومت کو باقاعدہ درخواست دے رکھی ہے۔ الاشرام کا کہنا ہے کہ اگر انہیں جنوبی آسٹریلیا کے چھوٹے سے شہر Port Pirie میں مذبحہ خانہ کھولنے اور گوشت کی برآمد کے لیے ایک پلانٹ لگانے کی اجازت مل جاتی ہے، تو وہ دنیا بھر میں اونٹ کا گوشت برآمد کر سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے بزنس کے نتیجے میں آسٹریلیا میں اونٹ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی پر بھی کنٹرول ممکن ہو سکے گا اور اس طرح Port Pirie میں کم ازکم تین سو تک افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر آ سکیں گے۔
الاشرام کے بقول اونٹ کا گوشت دیگر تمام جانوروں کے گوشت کے مقابلے میں صحت بخش ہوتا ہے اور اس میں چکنائی کی مقدار بھی کم ہوتی ہے، ’اونٹ کا گوشت مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور یورپ میں مقبول ہے جبکہ آسٹریلیا کے پاس وسائل ہیں کہ وہ ان خطوں میں رہنے والے ایسے صارفین کو اونٹ کا گوشت مہیا کر سکے‘۔
الاشرام کا منصوبہ ہے کہ وہ آسٹریلیا میں سب سے بڑا مذبحہ خانہ کھولیں، جہاں ہر سال ایک لاکھ جانور ذبح کیے جا سکیں۔ دوسری طرف Port Pirie کے میئر Brenton Vanstone کہتے ہیں کہ اس منصوبے کو اجازت ملنی چاہیے، ’بے شک ماحولیات کے لیے یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور اس کے نتیجے میں وہاں کے مقامی لوگوں کو ملازمتیں بھی مل سکیں گی۔‘
ایک محتاظ اندازے کے مطابق آسٹریلیا میں اس وقت ایک ملین کے قریب جنگلی اونٹ پائے جاتے ہیں، جو قریب تین ملین مربع کلو میٹر علاقے میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ آسٹریلوی حکومت کے مطابق ہر نو برس بعد ان کی تعداد دوگنا ہو جاتی ہے۔
بالخصوص آسٹریلیا کے صحرائی علاقوں میں پائے جانے والے ان اونٹوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کئی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں جبکہ 2010ء میں ایک خصوصی منصوبہ شروع کیا گیا، جس کے تحت ان اونٹوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ یہ اونٹ آسٹریلیا کے صحرائی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع میں بگاڑ کے موجب سمجھے جاتے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: مقبول ملک