1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صنفی مساوات

اونچی ایڑی والے 440 جوتے، ہر جوتا ایک ترک مقتولہ کا

16 جنوری 2020

ایک ترک آرٹسٹ واحت تیونا نے دو ہزار اٹھارہ کے دوران گھریلو اور جنسی تشدد سے قتل ہونے والی خواتین کی یاد میں ایک انوکھا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک کھلا زخم ہے اور اس سے رسنے والا خون نظر آنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/3WJkA
Türkei, Istanbul: Kunstinstallation von Vahit Tuna mit 440 Paar High Heels
تصویر: Reuters/M. Bulbul

واحت تیونا ترکی کے ایک آرٹسٹ ہیں، جنہوں نے استنبول کی ایک مصروف شاہراہ کی ایک عمارت پر اونچی ایڑی والے 440 جوتے لٹکائے ہیں۔ یہ جوتے ان خواتین کی یادگار کے طور پر نصب کیے گئے ہیں، جو گھریلو اور جنسی تشدد کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

واحت تیونا کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد پر احتجاج کے اس طریقہء کار کے ذریعے پہلی مرتبہ بھرے بازار میں لوگوں کو یہ کھلا زخم اور اس سے رسنے والا خون نظر آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’مجھے یقین ہے کہ لوگوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ میرے خیال میں اس احتجاج سے بیداری پیدا ہو گی کیونکہ یہ ایک ایسا طریقہ ہے، جو لوگوں کو متاثر کرتا ہے اور ان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔‘‘

Türkei, Istanbul: Kunstinstallation von Vahit Tuna mit 440 Paar High Heels
تصویر: Reuters/M. Bulbul

ترکی میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی وفات پا جاتا ہے تو اس کے جوتے گھر سے باہر دروازے پر رکھ دیے جاتے ہیں۔

واحت تیونا نے بھی اسی روایت کو زندہ کرتے ہوئے احتجاج کا یہ انوکھا طریقہ اپنایا ہے۔ ان کا یہ آرٹ ورک 260  مربع میٹر رقبے پر محیط ہے۔

ترکی کی ایک خاتون بینکار نے اس انوکھے مظاہرے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترکی کی گلیوں میں چلتے ہوئے اپنے آپ کو محفوط خیال نہیں کرتیں اور یہ سوچ کس قدر خوف ناک ہے کہ عورت ہوتے ہوئے آپ اپنے گھر پر محفوظ نہ ہوں۔ یہاں لٹکائے گئے چار سو چالیس جوتوں کا مطلب ہے کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں بہت سی جانیں گھریلو تشدد کی بھینٹ چڑھ گئیں اور یہ بہت پریشان کن بات ہے۔

ایک اور خاتون بینکار ہلال کوسو گلو نے کہا کہ جب تک سب خاموش رہیں گے، خواتین کے خلاف تشدد بڑھتا جائے گا۔ یہ خاموشی صرف خواتین کے قتل تک محدود نہیں ہے بلکہ انہیں چپ کروانے اور ڈرانے دھمکانے کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ دوسری جانب واحت تیونا کے فن کے اس منفرد مظاہرے کو سوشل میڈیا پر بھی بہت سراہا گیا ہے۔

ع ش / ا ا (روئٹرز)