اوپیک کی طرز پر گیس برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم؟
23 دسمبر 2008امریکہ اور یورپی یونین پہلے ہی اس بارے میں تشویش ظاہر کر چکے ہیں کہ اس تنظیم کا بنیادی مقصد باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ماسکو میں آج گیس برآمد کرنے والے 14 ملکوں کے توانائی کے وزرا کا ایک اجلاس ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر اعظم ولاڈی میر پوٹین نے کہا کہ سستی گیس کی فراہمی کا دور اب ختم ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر گیس کی برآمدی منڈی میں روس کا حصہ 22 فی صد ہے۔ چنانچہ نئی تنظیم کے قیام کے بعد روس کو گیس کی برآمدات اور ترسیل کے طریقہ کار پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
دوسری جانب روسی گیس کنسرن Gasprom کے نائب صدر Alexander Medwedew کا کہنا ہے:’’اوپیک کا طریقہ کار گیس کی منڈی پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ اوپیک کے رکن ممالک پیداواری کوٹے کے ذریعے قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے کاروبار پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ہم طویل المیعاد بنیادوں پر گیس فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے معاہدوں میں قیمتیں بھی طے شدہ ہوتی ہیں اور گیس فراہمی کا طریقہ بھی۔‘‘
یہ بات کسی حد تک درست ہے ۔ مثلا توانائی کے شعبے کی ایک بڑی جرمن کمپنی E.On اور BASF کی شاخ Wintershall کے ساتھ Gasprom نےگیس ترسیل کے جو معاہدے طے کر رکھے ہیں وہ 2036 اور2043 تک پھیلے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گیس کی ترسیل پائپ لائنوں کے ذریعے ہوتی ہے، جبکہ اس کے برعکس تیل بحری جہازوں اور دیگر ذرایع سے بھیجا جاتا ہے۔ جس سے قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔