ايپک سمٹ امریکا اور چین کی تجارتی جنگ سے متاثر
18 نومبر 2018خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاپوا نیو گنی کے وزیراعظم پیٹر او نائل نے آج اتوار کے روز ہونے والی اختتامی پریس کانفرنس میں امریکا اور چین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا، ’’آپ کو معلوم ہے یہاں کون سی دو بڑی طاقتیں موجود ہیں۔‘‘ پیٹر او نائل نے یہ بات ايپک سمٹ کے اختتام پر مشترکہ اعلامیے پر اتفاق نہ ہونے کے تناظر ميں کہی۔
ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن اجلاس کے اختتام پر کوئی حتمی معاہدہ نہ طے پائے جانے کی اہم رکاوٹ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم پاپوا نیو گنی نے عالمی تجارتی تنظیم میں اصلاحات کی ضرورت کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق، ’’ايپک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ لہٰذا یہ مسائل عالمی تجارتی تنظیم کے فورم پر اٹھائے جاسکتے ہیں۔‘‘
واضح رہے ایشیا پیسیفک خطے کے رہنماؤں کے سالانہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کی روایت سن 1993 سے قائم ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے جب ايپک سمٹ کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔ وزیراعظم پیٹر او نائل نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ بطور میزبان اپنا بیان جلد جاری کریں گے۔
غیر منصفانہ تجارت کا خاتمہ ضروری ہے، اپیک
پیسیفک خطے پر امریکا اور چین کی جانب سے اقتصادی اثر و رسوخ بڑھانےکی کوششيں جاری ہيں۔ مثال کے طور پر اپیک سمٹ کے دوران مغربی اتحادی ممالک نے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کے جواب میں پاپوا نیو گنی میں بجلی اور انٹرنیٹ منصوبوں پر 1.7 بلین امریکی ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ دوسری جانب جنوبی پیسیفک میں ایک سو ستر جزیروں پر مشتمل ملک ٹونگا نے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے میں شرکت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
پاپوا نیو گنی کے دارالحکومت پورٹ مورسبی سے واپسی سے قبل امریکی نائب صدر مائیک پینس نے بھی چین کے ساتھ اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیسیفک میں چین کی جانب سے بڑھتی ہوئی تجارتی سرگرمیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ پاپوا نیو گنی کے وزیر خارجہ نے روئٹرز کو مزید بتایا کہ ’کثیرالملکی تجارتی نظام‘ پر عدم اتفاق مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکنے کی اہم وجہ تھی۔
ع آ / ع س (روئٹرز)