ايک سابق نيونازی کی کہانی، اس کی اپنی زبانی
31 جنوری 2013جرمنی کے نيو نازی گروہوں کا بھی يہی طريقہء کار ہے۔ ايک نيو نازی گروہ سے نکل جانے والے کو بھی انہی خطرات کا سامنا ہے۔
جرمنی کے ايک نيو نازی گروہ کا ساتھ چھوڑ دينے والے زاشا کو نيو نازی گروپ اين ايس يو کی دہشت گردانہ وارداتوں اور ايک خاتون پوليس اہلکار اور کئی غير ملکيوں کو قتل کرنے پر بہت افسوس ہے۔ ليکن اس گروپ کے طاقت کے وحشيانہ استعمال اور انسان دشمنی پر اُسے حيرت نہيں ہے۔
زاشا نے شہر ڈورٹمنڈ کے قريب واقع ايک قصبے شويرٹے کے ايک ہائی اسکول کی دسويں کلاس کے طلباء اور طالبات کے سامنے اپنے تجربات اور تاثرات کا اظہار کيا۔
اسکول ميں دائيں بازو کی انتہا پسندی کی روک تھام کے ليے شہر کے نوجوانوں کی بہبود کے دفتر کے تعاون سے ايک خاص دن منايا گيا تھا، جس ميں سابق نيو نازی کو بدلے ہوئے نام زاشا کے تحت مدعو کيا گيا تھا۔
زاشا کو نيو نازيوں کے انتقام کا اتنا خوف ہے کہ وہ ان کا ساتھ چھوڑنے کے 20 سال بعد بھی نہ تو اپنا صحيح نام ظاہر کرنا اور نہ ہی اس حوالے سے اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے۔ اسکول ميں بھی اس نے اپنا چہرہ نقاب ميں چھپايا ہوا تھا۔
39 سالہ زاشا نے اسکول کے 15، 16 سال کی عمر کے طلباء اور طالبات کو بتايا کہ وہ ان کی عمر ميں سارا دن لوگوں کو تنگ کرنے اور ان کی زندگی جہنم بنانے ميں گزارتا تھا اور ہر مرتبہ کسی کو اذيت دے کر وہ خود کو بڑا محسوس کرتا تھا۔
تشدد اس کی زندگی بن گيا تھا۔ زاشا نے کہا: ’’ميں چھوٹے بچوں اور عورتوں کو مارا پيٹا کرتا اور معذوروں کو وہيل چيئر سے گھسيٹ کر نيچے پھينک ديا کرتا تھا۔ اگر بس ميں کوئی مجھے اچھا نہ لگتا تو ميں اس کی بے تحاشہ پٹائی کيا کرتا تھا۔ اس کے بعد زاشا اسکول جايا کرتا تھا۔‘‘
زاشا نے کہا کہ نيو نازيوں نے اسے انتہا پسندانہ نعروں کے ذريعے نہيں بلکہ دوستانہ انداز ميں اپنی طرف مائل کيا تھا۔ اسے بيلجيم ميں جنگل ميں لگائے گئے ایک کيمپ ميں آنے کی دعوت دی گئی، جہاں کھانے پينے اور شراب نوشی کے علاوہ کلاشنکوف چلانے کا موقع بھی مرجود تھا۔
زاشا نے مستقل طور پر شراب نوشی اور منشيات کا استعمال کيا۔ اس نے اپنے غير ملکی دوستوں سے قطع تعلق کر ليا۔ ايک مرتبہ جب وہ ايک جرم ميں پکڑے جانے کے بعد جيل ميں بند تھا تو اسے پہلی بار احساس ہوا کہ وہ غلط راہ پر تھا۔ تب ہی اس نے نيو نازی گروہ سے نکل جانے کا فيصلہ کر ليا۔ اس کے بعد گروہ نے اس پر حملہ بھی کيا ليکن وہ اپنے فيصلے پر ڈٹا ہوا ہے۔
G.Andrea,sas/ab