1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُف! آج دس دسمبر ہے، حامد میر

10 دسمبر 2018

دس دسمبر کی صبح اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بوندا باندی ہو رہی تھی۔ بستر سے نکلنے سے پہلے آئی فون پر پیغامات چیک کیے تو کوئٹہ سے ایک صحافی دوست کے پیغام پر نظریں رک گئیں۔

https://p.dw.com/p/39oga
Hamid Mir Pakistan
تصویر: privat

 اس نے لکھا تھا، ’’آج انسانی حقوق کا عالمی دن ہے۔ میرے شہر کوئٹہ میں کئی ہفتوں سے میری مائیں بہنیں اپنے گمشدہ پیاروں کی بازیابی کے لیے پریس کلب کے باہر بیٹھی ہیں لیکن کوئی انہیں انصاف دینے والا نہیں۔‘‘

اس نے مزید لکھا تھا، ’’میں نے کئی مرتبہ اپنے ٹی وی چینل پر ان ماؤں بہنوں کی خبر نشر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ کچھ دن پہلے آپ نے میری ان ماؤں بہنوں کے احتجاج کا نوٹس لیا اور جیو نیوز پر ذکر کیا تو میں نے اپنے ساتھیوں کو غیرت دلانے کی کوشش کی۔ انہوں نے جواب میں آپ کو کوستے ہوئے کہا کہ وہ پاگل ہےکیا ہم لوگ بھی پاگل بن جائیں؟۔

دوست نے لکھا حامد بھائی! آج دس دسمبر کو سردی بہت ہے اور دل بھی اداس ہے، ’’میں اور تو کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن آج سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی ماؤں بہنوں کے لیے چائے لے جاؤں گا، انہیں چائے پلا کر تسلی دوں گا کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ آج میری ان بے بس ماؤں بہنوں کو یاد رکھیے گا اور کہیں نہ کہیں ان کا ذکر کر دیجیے گا کیونکہ پاکستان کا میڈیا آج کل ہر ایشو پر بولتا ہے لیکن لاپتا افراد کے معاملے پر اکثر خاموش رہتا ہے۔‘‘

 یہ پیغام پڑھ کر میں بستر سے نکلا۔ بوجھل دل کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں گیا اور اخبارات کے بنڈل کو کھولا۔ اچانک ایک تصویر پر نظر پڑی۔ جہانیاں کے علاقے میں دو مردہ خواتین سڑک پر پڑیں تھیں اور ارد گرد کھڑے مرد ان مردہ خواتین کی بے بسی کو دیکھ رہے تھے۔ میری زبان سے فوراً یہ الفاظ نکلے، ’’ اُف! آج دس دسمبر ہے‘‘۔

دس دسمبر کے دن پاکستانی اخبارات میں جہانیاں کی مقتولہ تاج بیگم اور ان کی بیٹی عاصمہ بی بی کی لاشوں کی خاموش تصویروں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ دونوں ماں بیٹی ایک قتل کے مقدمے میں پیشی کے لیے عدالت آ رہی تھیں۔ جب وہ عدالت کے دروازے پر پہنچیں تو ان کے خاندانی مخالفین نے ان پر فائرنگ کر دی اور دونوں خواتین موقع پر ہی ہلاک ہو گئیں۔ اس سے قبل انہی ملزمان پر عاصمہ بی بی کے شوہر اور بہن کو قتل کرنے کا مقدمہ چل رہا تھا۔

پاکستان میں یہ روایت ہے کہ خاندانی اور قبائلی دشمنی میں خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا جاتا لیکن اس معاملے میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں خواتین کو تاک تاک کر مارا گیا اور چیف جسٹس آف پاکستان  کو اس معاملے کا از خود نوٹس لینا پڑا۔ پاکستان میں ہر سال پانچ ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر یا دیگر گھریلو جھگڑوں میں قتل کر دیا جاتا ہے لیکن اب یہ قتل و غارت عدالتوں کے دروازے پر پہنچ گئی ہے۔

اخبار پڑھتے پڑھتے ٹی وی آن کیا تو خبر چل رہی تھی کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو لاہور سے اسلام آباد لایا جائے اور ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا جائے۔ شہباز شریف کئی دنوں سے نیب کی حراست میں ہیں۔ تحریک انصاف کے وزراء بڑے فخر سے انہیں’’چور، ڈاکو‘‘ قرار دیتے ہیں لیکن نیب کی طرف سے عدالت میں ابھی تک شہباز شریف کی کسی چوری اور ڈاکے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ خبر سنتے سنتے مجھے پھر سے خیال آیا کہ آج دس دسمبر ہے، انسانی حقوق کا عالمی دن اور انسانی حقوق کی پامالی کے عملی مظاہرے مجھے گھیرے ہوئے تھے۔

ناشتے کو دل نہیں چاہا۔ چائے کا کپ بمشکل ختم کیا اور تیار ہو کر دفتر پہنچ گیا۔ آگے کمرے میں ایک  ساتھی پہلے سے انتظار میں تھا، اس نے راستہ روک لیا۔ خیال آیا کہ یہ دو ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی شکایت کرے گا لیکن نہیں۔ آج اسے اپنی تنخواہ بھول چکی تھی۔ اس نے بڑے دکھی لہجے میں کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں بہت سے اساتذہ اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہیں نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے، آپ ان کی بات سن لیں تو تسلی ہو جائے گی۔ پھر وہ کچھ اور قریب ہوا اور کان میں کہنے لگا، ’’ آج تو دس دسمبر ہے، آج تو ان کی بات سن لیں۔‘‘ میں نے دل میں سوچا کہ ان اساتذہ کی بات سن کر ان کا مسئلہ حل کرنا تو حکومت کا کام ہے اور میرا کام تو ان کا مسئلہ حکومت تک پہنچانا ہے۔ میں نے اپنے کیمرہ مین سے کہا کہ آؤ ڈی چوک چلیں لیکن بہتر ہے کہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کو بھی وہاں بلا لیں۔ پھر میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو کال کرنا شروع کی تو ان کا نمبر بند ملا۔ کم از کم آج تو یہ نمبر کھلا ہونا چاہیے تھا۔ بہر حال ہم نے ڈی چوک میں احتجاج کرنے والے اساتذہ کی بات سن کر وزیر تعلیم شفقت محمود تک پہنچا دی۔

ابھی ابھی نیشنل پریس کلب سے کال آئی ہے کہ صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ شروع ہونے والا ہے، آپ نے خطاب کرنا ہے ذرا جلدی پہنچیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران دو صحافیوں کو خیبر پختوانخوا میں قتل کیا جا چکا ہے۔ پریس کلب کے سکیرٹری شکیل انجم کسی ساتھی کے بچوں کی اسکول فیس کا بندوبست کر رہے تھے۔

آج دس دسمبر کے دن ایک صحافی کی زندگی کے معمولات میں ہر طرف انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ پاکستان کے صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں، تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتیں لیکن وہ اپنے ارد گرد ہونے والے ظلم و ستم پر آواز بھی بلند کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور جب وہ کسی مظلوم کی آواز نہیں بن سکتے تو اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے اس مظلوم کو چائے تو پلا ہی دیتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کے فون اور دل دونوں بند نظر آتے ہیں۔