1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبادی میں اضافے کے لیے چینی حکومت کی پالیسیاں ناکام کیوں؟

9 نومبر 2024

چین میں لوگوں کو شادی کی ترغیب دینے اور خاندانی نظام کے فروغ کے لیے حال ہی میں منعقدہ ایک فیسٹیول میں شرکاء کی تعداد انتہائی کم رہی اور اسے عوام نے دقیانوسی نظریات پر مبنی قرار دے کر شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

https://p.dw.com/p/4mlB4
چین کی ایک ہسپتال میں ایک نرس نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کر رہی ہے
بیجنگ نے مقامی حکومتوں کو متوجہ کیا کہ وہ لوگوں کو صحیح عمر میں شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیںتصویر: CFOTO/picture alliance

سوشل میڈیا صارفین نے چین کے شہر چانگشا میں منعقدہ ایک ایکسپو میں چند ایسے پیغامات کی تشہیر پر بھی تنقید کی جو خواتین کے کردار کو گھریلو کاموں اور بچوں کی پرورش تک محدود کرتے ہیں اور صنفی حوالے سے دقیانوسی تصورات کو فروغ دیتے ہیں۔

ایک چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جیانگوو کے نام سے موجود صارف کا کہنا تھا، ’’یہ تمام نعرے صرف خواتین کے لیے ہیں۔ کیا مناسب نہیں کہ مرد و عورت دونوں مل کر گھر کا کام کریں؟‘‘

ایک اور چینی سوشل میڈیا اور ای کامرس پلیٹ فارم ’’ژیاہونگشو‘‘ پر ژیاہونگ نامی صارف نے لکھا کہ اس فیسٹیول نے ان لوگوں کو جو ابھی تک شادی کرنے سے ہچکچاتے تھے، اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب شاید وہ شادی کے خیال کو مکمل ترک کردیں۔‘‘

چین کی وزارتِ شہری امور کے مطابق رواں برس کے پہلے تین سہ ماہیوں میں شادی شدہ جوڑوں کی تعداد 4.75 ملین رہی، جو گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران رجسٹر ہونے والی شادیوں سے 16.6 فیصد کم ہے۔

میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل ایک چینی خاندان بیجنگ کی مشہور شاپنگ اسٹریٹ کی سیر کرتے ہوئے
وفاقی حکومت نے ایک سے زائد بچوں والے خاندانوں کو رہائشی معاونت دینے کے لیے بھی ہدایات جاری کیںتصویر: Andy Wong/AP/picture alliance

بیجنگ نے گزشتہ ہفتے مقامی حکومتوں کو متوجہ کیا کہ وہ لوگوں کو ’’صحیح عمر‘‘ میں شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔

وفاقی حکومت نے ماں اور بچے کی دیکھ بھال کی سہولتوں کو بہتر طریقے سے فراہم کرنے اور ایک سے زائد بچوں والے خاندانوں کو رہائشی معاونت دینے کے لیے بھی ہدایات جاری کیں۔ یہ حکومت کا اب تک کا سب سے جامع فریم ورک ہے، تاہم اس میں عملدرآمد اور مالی معاونت فراہم کرنے کے حوالے سے تفصیلات ابھی تک غیر واضح ہیں۔

وکٹوریا یونیورسٹی کے سنٹر آف پالیسی اسٹڈیز کے سینئر ریسرچ فیلو ژیان شیو کے مطابق ’’حکومتی پالیسیوں کا اثر اس وقت تک محدود رہے گا، جب تک کہ کام کے اوقات میں کمی اور کام کی جگہ پر خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے جائیں۔‘‘

بیجنگ کے ایک عوامی پارک میں ایک خاتون اور بچہ برف سے ڈھکے تالاب پر آئس چیئر کو دھکیلتے ہوئے
ایک چینی شہری کے مطابق بچے کی پیدائش پر آنے والے اخراجات اب بھی بہت زیادہ ہیں اور اس کے فوائد انتہائی کمتصویر: Mark Schiefelbein/AP Photo/picture alliance

سوشل میڈیا پر کی جانے والی متعدد پوسٹس کے مطابق مقامی حکام نے حمل کی حوصلہ افزائی کے لیے خواتین کو نہ صرف غیر متوقع طور پر فون کالز کیں، بلکہ انہیں مفت وٹامنز بھی فراہم کیے گئے۔

تاہم ریاستی کونسل کے حالیہ اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے شنگھائی کی 32 سالہ رہائشی آئچی کا کہنا تھا کہ، ’’بچے کی پیدائش پر آنے والے اخراجات اب بھی بہت زیادہ ہیں اور اس کے فوائد انتہائی کم۔‘‘

وہ کہتی ہیں ’’ہمیں مسابقتی تعلیمی نظام، شدید محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کا ماحول تبدیل کرنے اور رہائش کے اخراجات میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔‘‘

حکومتی پالیسیاں ناکام کیوں؟

چین نے 2015 میں 35 سال سے رائج ایک بچہ فی خاندان کی پالیسی ختم کر دی تھی۔ اس کے باوجود بھی چینی حکومت پیدائش کی شرح میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ شرح گزشتہ برس تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی تھی۔

ماہرین بھی اس رجحان میں جلد کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھ رہے۔ وہ آنے والے چند ماہ میں اس حوالے سے حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات کی توقع رکھتے ہیں، تاہم وہ اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ مقروض مقامی حکومتوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر اخراجات کر سکیں۔

یونیورسٹی آف وسکونسن میڈیسن سے تعلق رکھنے والے ماہر ای فوشیان کا کہنا ہے کہ، ’’ایک بچے کو ٹیکس دہندہ بننے میں 20 سال لگتے ہیں۔ مقروض مقامی حکومتوں کو بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کا کوئی فوری براہ راست فائدہ نہیں ہے۔‘‘

چین کے شہر ممنوعہ میں بچے کو گود میں لیے ایک چینی خاتون
چین کو آبادی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 10 فیصد حصہ درکار ہےتصویر: Wang Zhao/AFP/Getty Images

ملکی آبادی کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے مطابق چین کو آبادی کی شرح میں کمی کو روکنے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 10 فیصد حصہ درکار ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے متعارف کرائی جانے والی پالیسیاں فرانس اور سوئیڈن جیسے ممالک میں مفید ثابت ہوئی ہیں تاہم وہ مشرقی ایشیا کے ممالک میں اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوسکیں جس کی ممکنہ وجہ ان معاشروں میں موجود صنفی عدم مساوات ہے۔

جنوبی کوریا اور جاپان عالمی اقتصادی فورم کے صنفی انڈیکس میں 46 ویں اور 59 ویں نمبر پر ہیں جبکہ چین درجہ بندی میں 107 ویں نمبر پر ہے۔

یونیورسٹی آف مشی گن میں سوشیالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر یان ژو کے مطابق بچوں کی پیدائش میں اضافے کے لیے حکومتی سطح پر نافذ کیے جانے والے اقدامات عموماﹰ عوامی سطح پر مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔

چین کے ہسپتال میں نوزائیدہ بچے کو گود میں لیے ایک نرس
ماہرین کے مطابق مشرقی ایشیا میں حکومتی سطح پر متعارف کرائی جانے والی پالیسیوں کی ناکامی کی ایک ممکنہ وجہ صنفی عدم مساوات ہےتصویر: picture alliance / CFOTO

چانگشا ایوننگ نیوز کی رپورٹ کے مطابق شہر میں ہونے والے فیسٹیول میں ایک ’’شادی اسکول‘‘ بھی قائم کیا گیا جہاں ایک آلے کے ذریعے زچگی کے دوران خواتین کو ہونے والی درد کا تجربہ مردوں کو فراہم کیا گیا جس میں درد کی شدت کو ایک سے 10 تک بڑھانے یا کم کرنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ اس تجربے کا مقصد ان کو یہ سمجھانا تھا کہ بچے پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا نہ صرف خوشگوار بلکہ مشکل عمل ہے۔

اس ایکسپو میں شرکت کرنے والے جوڑے چاہیں تو وہ بچوں کے ڈائپر تبدیل کرنے اور فارمولا دودھ تیار کرنے جیسے کام بھی سیکھ سکتے ہیں اور اس کے عوض انہیں ’’انٹرنشپ شادی سرٹیفکیٹ‘‘ دیا جائے گا۔ یہ ایکسپو نومبر تک ہر ہفتے کے آخر میں منعقد کی جائے گی۔

ویبو کے ایک صارف یُو ژیاؤ کے مطابق یہ فیسٹیول اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہا۔ وہ کہتے ہیں، ’’لڑکیوں کو انسان سمجھو اور ان کی عزت کرو۔ وہ پہلے ہی شادی نہیں کرنا چاہتیں اور اب حکام ان پر اور ان کے خاندانوں پر بچے پیدا کرنے کے لیے اتنا دباؤ ڈال رہے ہیں جبکہ ان کے مالی حالات انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔‘‘

ح ف / ش ر (روئٹرز)

چینی عورتیں بچے کیوں پیدا نہیں کرنا چاہتیں؟