اٹلانٹس کا آخری سفر، امریکی خلائی پروگرام کا مستقبل موضوع بحث
9 جولائی 2011امریکی خلائی ادارے ناسا کو شدید ترین مالی کٹوتیوں کا سامنا ہے جبکہ ناسا کے خلائی تحقیق کے وژن پر بھی چاند پر پہلی مرتبہ قدم رکھنے والے انسان نیل آرمسٹرونگ کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر ماہرین کی طرف سے تنقید بھی جاری ہے۔ نیل آرمسٹرونگ کا خیال ہے کہ ناسا کو اپنے مستقبل کے حوالے سے واضح راستے کے تعین کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب امریکہ میں بہت سے ماہرین امریکی خلائی جہازوں کے بیڑے کی آخری شٹل اٹلانٹس کی اس آخری تحقیقی پرواز کو امریکی خلائی تحقیق کے پروگرام کے لیے ایک نئے عہد کے آغاز سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔
جمعے کے روز جب خلائی شٹل اٹلانٹس نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS کی جانب اپنی پرواز شروع کی، توامریکی شہریوں کے جذبات دیدنی تھے۔ امریکہ بھر میں ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کی جانب والی اس تقریب کے موقع پر کئی افراد افسردہ انداز میں اس شٹل کی آخری پرواز کے منظر کو دیکھ رہے تھے جبکہ بہت سے دیگر افراد کے نزدیک یہ ایک انتہائی خوشگوار اور یادگار لمحہ تھا۔
خلائی شٹل اٹلانٹس کی روانگی کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’آج اٹلانٹس کی یہ پرواز اسپیس شٹل کی آخری پرواز ہو سکتی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ایک نہ ختم ہونے والی مہم جوئی اور تحقیق کا ایک اور دور شروع ہو گیا ہے۔‘
صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ معاشی نمو کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، علم اور تحقیق میں ترقی پر بھی توجہ دیتا رہے گا۔ ’’میں ناسا سے وابستہ ہر شخص کو یہ مشن سونپتا ہوں کہ وہ خلا میں نئی سرحدوں کو پھلانگیں اور امریکیوں کو مریخ پر بھیجنے کے لیے اپنے اہداف پر کام آگے بڑھائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ ہر چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ 30 برس پرانا یہ خلائی جہاز اس سفر کے بعد ریٹائر ہو جائے گا۔ جمعے کے روز فلوریڈا کے کینیڈی خلائی تحقیقی مرکز سے روانہ ہونے والی خلائی شٹل اٹلانٹس میں چار امریکی خلانورد سوار ہیں۔ یہ جہاز اس سفر کے دوران 12 روز تک خلا میں قیام کے بعد واپس زمین پر اترے گا۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک