اٹھاون سال قبل دیوار برلن کی تعمیر کے وقت جرمنی کیسا تھا؟
13 اگست 2019کمیونسٹ نظام حکومت والے سابقہ مشرقی جرمنی کی اسٹیٹ کونسل کے سربراہ والٹر اُلبرشٹ نے پندرہ جون سن 1961 کو برلن شہر کے مشرقی حصے میں منعقدہ انٹرنیشنل پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کوئی بھی برلن شہر میں دیوار تعمیر کرنے کی سوچ نہیں رکھتا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اُلبرشٹ کے بیان کے صرف دو ماہ بعد ہی دیوار برلن کی تعمیر شروع کر دی گئی تھی۔
اگلے اٹھائیس برسوں تک دیوار برلن نے اس شہر کو مشرقی اور مغربی حصوں میں منقسم رکھا۔ اس دیوار کی تعمیر سے برلن کے شہریوں کو شدید پریشانیوں اور بےچینی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ برلن کے مغربی حصے کے میئر اور پھر مغربی جرمنی کے وفاقی چانسلر ولی برانٹ نے اس دیوار کو اذیتی اور مشقتی کیمپ کا بیریئر قرار دیا تھا۔
دیوار برلن اپنی تعمیر کے بعد دس ہزار تین سو پندرہ دنوں تک سرد جنگ کے استعارے اور نشان کے طور پر تاریخ کے صفحات پر موجود رہی۔ اس دیوار کو کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی جانب سے عبور کرنے کی کوشش کے دوران ڈھائی سو زائد افراد نے سکیورٹی فورسز کی گولیوں کے ذریعے موت کو گلے لگایا۔ اس دیوار کی تعمیر کے وقت مشرقی حصے سے راہِ فرار اختیار کرنے والے افراد میں سے ہر دوسرا شہری پچیس برس سے کم عمر کا تھا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سن 1961 کی جوان جرمن نسل جنگ، تباہی و بربادی اور بمباری کے دور میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نسل کے کئی بچوں نے اپنی زندگی میں اپنے اپنے باپ کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی کیونکہ وہ میدان جنگ میں کام آ چکے تھے۔ اس نسل کے روشن مستقبل کے لیے اِن کے بڑوں نے جنگ سے عبارت تلخ ماضی کو بھلا کر اسے پروان چڑھایا۔
تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں معیشت کے پہیے کو چلانے میں ہر مرد و زن خواہ وہ نوجوان تھا یا عمر رسیدہ، مصروف رہا جب کہ مغربی جرمنی میں اقتصادی معجزے نے پریشان دور کو پرسکون اور روشن ماہ و ایام میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ترقی و خوشحالی کی بہار نے سبھی شہروں، قصبوں اور دیہات کے باسیوں کے چہروں پر مسکراہٹ پیدا کر دی تھی۔
بہت سے جرمنوں کو دیوار برلن کی تعمیر کے بارے میں خبریں اور معلومات ریڈیو پر نشر کی جانے والی خبروں اور حالات حاضرہ کے خصوصی پروگراموں، اخبارات اور ٹیلی وژن سے ملی تھیں۔ یہ وہی دور تھا جب سوویت خلاباز یوری گیگرین نے خلا میں پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا اور جرمنی میں نازی دور کے فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل اڈولف آئشمان کے خلاف اسرائیل میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تھی۔
معاشی ترقی کی جد و جہدکے سائے میں جوان ہوتی نسل اپنے ارد گرد کے حالات سے اکتانے لگی اور اُس نے بوریت کی جگہ آزادی پسندی کو ترجیح دی۔ اس میں جدید ڈانس اور تیز رفتار ردھم والی موسیقی کے لیے خاص رغبت پیدا ہوئی۔ ایسا میوزک امریکا سے اسٹریمنگ کے ذریعے حاصل کر کے سنا جاتا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں میں ایلوس پریسلے کے تھرکنے نے ایک نیا رنگ اور جوش پیدا کر دیا تھا، حالانکہ اس وقت مغربی جرمنی میں انگریزی کی سوجھ بوجھ عام نہیں تھی۔
مغربی جرمنی کی سڑکوں پر چُست جینز کی پتلونیں، چمڑے کی جیکٹیں اور 'پَنکس‘ نظر آنے لگے۔ اُس دور کے جرمن گلوکار پیٹر کراؤس کو جرمن پریسلے کہا جانے لگا اور جرمن شہروں میں نوجوان نسل ان کی دلدادہ ہو گئی۔ ان کے پوسٹر جا بجا بکنے لگے۔ نو جوان جرمن نسل ہالی ووڈ کے اداکاروں پیٹر الیگزینڈر، صوفیہ لورین اور آڈرے ہیپبرن کے علاوہ خاتون گلوکارہ کیٹرینا ویلنٹے کی دیوانی ہو گئی۔ اسی دور میں جرمن شہر ہیمبرگ میں مشہور عالم میوزیکل گروپ 'بیٹلز‘ نے جنم لیا اور اپنے گیتوں سے دنیا بھر کو مسحور کیا۔
دیوار برلن کے دوسری جانب نوجوان نسل مصائب اور صعوبتوں کا شکار تھی۔ مشرقی جرمنی میں راک اینڈ رول ڈانس کی مکمل ممانعت تھی اور خلاف ورزی پر قید کی سزا۔ جدید فیشن اپنانے پر کمیونسٹ حکومت نوجوانوں کو جیل میں ڈال دینے سے بھی گریز نہیں کرتی تھی۔ مشرقی جرمن معاشرے کو پریشر ککر سے تشبیہ دی جانے لگی اور اس وقت کا انتظار کیا جانے لگا کہ کب یہ ککر پھٹے۔ اس پریشر ککر کو پھٹنے میں اٹھائیس برس سے کچھ زیادہ عرصہ لگا۔
سوزانے سپروئیر (عابد حسین)