’اپنی تشہیر کے لیے انتہا پسندوں کی شرمناک کارروائی‘، تبصرہ
28 مارچ 2016اگر آدمی حملہ آوروں کے فخریہ نقطہء نظر کے لحاظ سے دیکھے تو یہ حملے گویا حکومت اور سکیورٹی فورسز کے لیے باعث شرمندگی تھے۔ وہ نو ملین نفوس پر مشتمل لاہور کے ایک پارک میں ایسٹر کے علامتی طور پر اہم دن مسیحی برادری کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ لاہور میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے کے مطابق اس حملے کا ابتدائی نتیجہ یہ ہے کہ ستر سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اُنتیس بچے بھی شامل ہیں جبکہ مسیحی ’’صرف‘‘ دس ہیں۔
حملہ آوروں کا یہ دعویٰ کہ وہ لاہور میں مسیحیوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اپنی تشہیر کے لیے چلی جانے والی ایک شرمناک چال تھی۔ طالبان کا یہ دھڑا بجا طور پر یہ امید کر سکتا ہے کہ دنیا بھر میں، خاص طور پر مغربی مسیحی دنیا میں، انہیں کافی حد تک توجہ حاصل ہو گی۔ اس سے ایک مرتبہ پھر ظاہر ہوتا ہے کہ ان انتہاپسندوں کے اہداف کچھ بھی ہوں، بڑے پیمانے پر ان کا شکار مسلمان ہی بن رہے ہیں، چاہے یہ داعش کے زیر قبضہ شام یا عراق، افریقہ، انڈونیشیا یا پھر افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کریں۔
یہ تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں قوانین سیکولر ہرگز نہیں ہیں۔ توہین مذہب کی سزا اب بھی موت ہے۔ یورپ میں آپ چاہیے اس بات پر جتنا مرضی حیران ہوں لیکن پاکستان کی زیادہ تر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ان کے نزدیک ایسا بالکل ٹھیک ہے کہ عوامی زندگی کو بھی قرآنی قوانین کے مطابق گزارا جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسیحیوں کے مشنری اسکول پاکستان کی اشرافیہ کے بچوں کے پسندیدہ ترین ادارے ہیں کیوں کہ ان کا معیار انتہائی اعلیٰ ہے۔ ایسی کئی سماجی پیچیدگیاں بھی اسی ملک کا حصہ ہیں اور انہیں چند جملوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
اس حملے کے بعد اگر پاکستان کے سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں سراسیمگی خاص طور پر نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کی ایک نوجوان مسلمان لڑکی لکھتی ہے کہ تمام انسان اس کے بھائی بہنیں ہیں۔ اسی طرح ایک اور صارف نے پیغمبر اسلام کے ایک قول کا حوالہ دیا ہے، جس میں ایسے عمل کو سراسر ظلم اور غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔
دوسری جانب اس ملک میں روز بروز انتہا پسندی کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس عمل کو ایک عرصے سے پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر حکومت اور خفیہ اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اَسّی کی دہائی میں اس کو امریکا کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تب کمیونسٹ سویت یونین کے خلاف ہر حربے کا استعمال جائز تھا۔ اب ان عناصر سے چھٹکارا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ گزشتہ برسوں میں کئی فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں لیکن دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس حملے کے بعد اس بات کی توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ مزید پاکستانی شہری بیرون ملک اپنی قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ ایسے لوگ خود کو خوش قسمت تصور کریں گے، جنہیں بیرون ملک پڑھائی کے لیے کوئی وظیفہ، متحدہ عرب امارات یا یورپ سے ملازمت کی کوئی پیشکش ملے گی۔ پاکستان کا مراعات یافتہ طبقہ پہلے ہی ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اب کم مراعات یافتہ طبقہ بھی یہ ضرور سوچے گا کہ شاید ایڈومینی کا وہ انتہائی ابتر یونانی مہاجر کیمپ بھی اُس ملک سے بہتر ہو، جہاں خاندان کے ساتھ کسی پارک کی سیر کو جانا بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔