1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اپنے پیشے سے محبت کیجیے

26 نومبر 2024

آجر اور اجیر کے معاملات کبھی اطمینان بخش نہیں ہوتے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ہم سماجی طور پر روزی روٹی کے وسیلوں کو بہت اہمیت دینے کے باوجود بھی اس کے لیے بنیادی اور بہت ضروری اخلاقیات سے کافی زیادہ دور دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nQaQ
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

جیسے دنیا کی گاڑی ایک دوسرے سے تعاون اور جوابی تعاون کے ذریعے ہی چل رہی ہے، بالکل ایسے ہی ہمارے معاش کی گاڑی بھی دوسروں کی مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہم اپنی روزی کے لیے کسی کا کام کر رہے ہیں یا پھر کسی سے کام لے رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس میں سے کوئی بھی صورت ہو، ہم اس سے اکثر ایک دوسرے یا اپنے کام سے شاکی دکھائی دیتے ہیں، جیسے یہ طے ہے کہ ساس بہو کی نہیں بنتی، مالک مکان اور کرایہ دار کی نہیں نبھتی، بالکل ایسے ہی آجر اور اجیر کے درمیان یا کاری گر اور مالک کے درمیان معاملات بھی زیادہ اچھے یا اطمینان بخش دکھائی نہیں دیں گے۔

اگر ہم کسی کا کام کر رہے ہیں، تو ہمیں اپنے کام لینے والے سے مختلف طرح کی شکایات ہوں گی اور اگر ہم کسی سے کام لے رہے ہیں تو ہمیں اپنے کام کرنے والے سے بھی بہت سے شکوے ہوں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم سماجی طور پر روزی روٹی کے وسیلوں کو بہت اہمیت دینے کے باوجود بھی اس کے لیے بنیادی اور بہت ضروری اخلاقیات سے کافی زیادہ دور دکھائی دیتے ہیں۔

یہی نہیں ہم میں سے اکثر لوگ اپنے پیشوں اور پیشہ وارانہ زندگی سے بھی کافی نالاں رہتے ہیں، یہاں تک کہ اکثر اچھے عہدوں اور اچھے کاروبار کرنے والے بھی شکایتیں کرتے رہتے ہیں، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ کسی دوسرے شعبے یا پیشے میں زیادہ سہولتیں یا آمدنی ہے اور جو کام وہ اس وقت کر رہے ہیں، وہ بہت خسارے یا مسائل والا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے ہر کام میں کچھ نہ کچھ مسائل اور خطرات تو موجود ہوتے ہی ہیں، لیکن ہم جب دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اس کے صرف فائدے اور سہولتیں ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے یہ ایک عام سی بات ہے کہ کامیابیوں پر ہم سے سبھی دعوت مانگتے ہیں، لیکن ہماری ناکامی یا مشکل وقت میں شاذ و نادر ہی کسی کا ساتھ مل پاتا ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ جب ہم اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے ناخوش رہتے ہیں، تو نہ صرف ہماری عام زندگی بے سکون ہو جاتی ہے، بلکہ ہمارے موجودہ پیشے میں جو کامیابیاں یا بلندیاں ہمارا مقدر ہو سکتی تھیں، وہ بھی ہم سے چھوٹتی چلی جاتی ہیں۔ یہ حقیقیت ہے کہ ہمیں اپنے شوق کے مطابق ہی روزگار اپنانا چاہیے، معروف شاعر مرزا غالب نے بھی اپنی تحریروں میں اس بات پر رشک کا اظہار کیا تھا کہ اگر کسی شخص کا شوق ہی اس کے روزگار کا ذریعہ ہو جائے، تو اس کے پھر کیا ہی کہنے۔ معنی یہ کہ ہم اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ اور عام دن کا آدھے سے بھی زیادہ وقت اپنے اپنے روزگار کو دیتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم اس سے لطف اندزو نہ ہوں، تو یہ ہماری اپنی زندگی کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ ذرا سوچیے، اگر یہی وقت آپ کوفت اور اندر ہی اندر کڑھنے کے بہ جائے اس موجودہ ملازمت، موجودہ روزگار یا کاروبار کو مزید بہ تر کرنے یا اس میں نئے مواقع تلاش کرنے میں لگائیں، تو ہمارے مسائل بہتر بھی تو ہو سکتے ہیں، لیکن ہم منفی سوچ میں اکثر ایسا نہیں کرتے۔

ہمارے اس رویے اور مزاج کی وجہ سے ہماری کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور چونکہ ہم اپنے کام سے لگن نہیں رکھتے، چنانچہ اس سے وابستہ لوگوں سے اس طرح کی اخلاقیات یا اچھے رویوں کا مظاہرہ نہیں کر پاتے، جس سے ہماری تلخی ہمارے کلائنٹس تک پہنچتی ہے۔ ہم اگر عوام سے ڈیل کر رہے ہوتے ہیں، تو انہیں بھی خراب معیار کی شکایات ہوتی ہیں، جب کہ مغرب میں ان سب چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، وہ نہ صرف آپ کے پیشے کے چناﺅ اور اس سے آپ کی لگن کو ضروری خیال کرتے ہیں، بلکہ اس کے بعد آپ کی فرم، دفتر یا روزگار کے کسی بھی ذریعے سے خوش اخلاقی یا اعلیٰ اقدار کی ترسیل کی توقع رکھتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں پیشے کا مقصد پیسے کمانے سے شروع ہو کر زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے پر ختم ہو جاتا ہے، ہمارے ہاں عام دکان دار تک ایسا کرتے ہیں کہ کسی طرح کوئی بھی چیز جھوٹ یا سچ کہ کر بس فروخت کر دی جائے، مقصد یہی ہوتا ہے کہ جو بھی گاہک ہو، اس سے اس وقت منافع لیا جائے اور کبھی گاہگ کی طرف سے کوئی شکایت آ جائے، تو الٹا اسی پر الزام ڈال دیجیے یا پھر اپنی بات ہی سے بالکل مکر جائیے، چیز بنانے والوں پر الزام دھر دیجیے، کہ ہم کیا کریں چیز ہی ایسی آ رہی ہے وغیرہ۔

یہ سب باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ یہ سب ہمارے عام سماجی رویے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اپنے روزگار کے وسیلوں سے انصاف نہیں کرتے، حالاں کہ اگر ہم غور کریں تو ہم اپنے پیشہ وارانہ رویے اچھے اور صحت مند بنا کر بھی تو اپنی ساکھ اچھی کر سکتے ہیں، کاروبار کا اصول ہے کہ جو چیز کم اور کم یاب ہو اس کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ سو، آپ کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا کام کر رہے ہوں، اگر آپ حقیقت میں صرف زبان کے نہیں بلکہ عمل کے بھی اچھے ہو جائیں، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ نہ صرف آپ کی زندگی میں خوش گوار اثرات پڑیں، بلکہ آپ کے کام میں برکت اور بڑھوتری پیدا ہو۔ جب اچھا معیار، بہتر اخلاق، زبان کی پاس داری اور سچائی ملے گی تو کوئی بھی کیسے کسی بد اخلاق اور زبان سے پھر جانے والے یا غلط بیانی کرنے والے کے پاس جائے گا، لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ایسا تو تب ہو کہ جب ہم دور اندیشی سے یہ سب سوچیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔