اڈیالہ جیل پر ناکام حملے کی خبروں کے بعد انکوائری کا مطالبہ
7 مارچ 2024پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہونا چاہیے کہ کس طرح افغانستان سے مبینہ دہشت گرد چلے اور پاکستان پہنچ کر انہوں نے کیسے اڈیالہ جیل پر حملہ کرنے کی کوشش کی، جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان بھی اسیری کاٹ رہے ہیں۔
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد
راولپنڈی پولیس کے ایک ترجمان محمد آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اڈیالہ جیل میں ایک حملے کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور تین افغان دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن کی پاس سے بھاری تعداد میں جدید ہتھیار بھی ملے۔ ان میں خودکار ہتھیار، دستی بم، بارودی مواد اور جیل کے نقشے بھی شامل تھے۔
تفصیلات بتانے سے اجتناب
جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب کے سربراہ وسیم سیال سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ پولیس ابھی اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور وہ کچھ دیر بعد اس کی تفصیل فون کر کے بتا دیں گے۔ تاہم ڈوئچے ویلے کے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود انہوں نے نہ ہی دوبارہ فون کال سنی اور نہ ہی اس واقعے کی کوئی تفصیلات بتائیں۔
جب ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے پنجاب پولیس کے ترجمان سے رابطہ کیا، تو انہوں نے سی ٹی ڈی ترجمان کا نمبر بھیج دیا۔ اس پر ڈی ڈبلیو نے ترجمان سی ٹی ڈی سے بھی متعدد مرتبہ رابطے کی کوشش کی تاہم انہوں نے بھی نہ تو تحریری سوالات کے کوئی جواب دیے اور نہ ہی فون اٹھایا۔
پنجاب حکومت کا بیان
اس حوالے سے پنجاب کی صوبائی وزیر عظمیٰ بخاری سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہیں بھی سوالات بھیجے گئے۔ عظمیٰ بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' گزشتہ رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر پولیس اور سی ٹی ڈی نے ایک مشترکہ آپریشن کیا، جس میں تین افغان دہشت گردوں کو گرفتار کر لیا گیا، جن کے پاس سے بھاری تعداد میں جدید ہتھیار بھی ملے۔ ان میں آٹومیٹک گنز، پستول اور بارودی مواد شامل تھے۔ ان سے جیل کے نقشے بھی ملے۔ دہشت گرد جیل پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔‘‘
سائفرکیس: عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید کی سزا
بعد ازاں راولپنڈی پولیس کے ایک ترجمان، محمد آصف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی ان گرفتار شدہ ملزمان سے تفتیش جاری ہے۔ ان کا تعلق افغانستان سے ہے اور ان کو بدھ کی رات تقریباﹰ 12 بجے گرفتار کیا گیا تھا۔‘‘
ترجمان نے اس بات کی تردید کی کہ انہیں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔ محمد آصف کے مطابق، ''ابھی تفتیش ابتدائی مراحل میں ہے اور پولیس ان سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ جیسے ہی اس حوالے سے کوئی لیڈ ملے گی، تو وہ میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔ ملزمان کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جائیں گے۔‘‘
عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی
اس سوال کے جواب میں کہ کیا دہشت گردوں کا ہدف سابق وزیر اعظم عمران خان تھے، محمد آصف نے کہا، ''جو اطلاعات ہمیں اب تک ملی ہیں، ہم نے شیئر کر دی ہیں۔‘‘
سوالات ابھی باقی ہیں
اڈیالہ جیل میں اس مبینہ ناکام حملے کے انکشاف کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے ناکام بنائے جانے کے حوالے سے کئی سوالات ابھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ پولیس نے ابھی تک انہیں اس حملے کے حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ممکنہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنما شاید پولیس کے ساتھ رابطے میں ہوں۔ لیکن میرے علم میں نہیں کہ پولیس نے ابھی تک ہمیں رابطہ کر کے کچھ بتایا ہے۔‘‘
بلوچستان میں پھر بم دھماکہ، پاکستان آرمی کے پانچ فوجی ہلاک
شعیب شاہین کے مطابق تحریک انصاف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس حملے کے حوالے سے بنیادی سوال کرے۔ ''یہ دہشت گرد کون تھے؟ ان کا ٹارگٹ کیا تھا؟ انہیں کیسے گرفتار کیا گیا؟ وہ کیسے یہاں تک پہنچے؟‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان تمام سوالات کے جوابات کے لیے جوڈیشل انکوائری کرائی جائے تاکہ حقائق کا تعین ہو سکے۔
سیاست دانوں کو تشویش
اس ناکام دہشت گردانہ حملے سے متعلق خبروں پر کئی دیگر سیاستدان بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ایک رہنما اور سابق سینیٹر محمد اکرم کا کہنا تھا کہ ایک ایسی جگہ جہاں ایک سابق وزیر اعظم کو قید میں رکھا گیا ہے، حملے کے منصوبے کی خبریں انتہائی تشویش ناک ہیں۔
پاکستان میں 2023ء میں ایک دہائی کے سب سے زیادہ خود کش حملے
محمد اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جیلوں کے ارد گرد اور ان کے اندر بھی بہت زیادہ سکیورٹی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گرد کس طرح اڈیالہ جیل تک پہنچ گئے؟ ان تمام پہلوؤں سے چھان بین ضروری ہے۔‘‘
جیل پر حملہ بہت مشکل ہوتا ہے
سکیورٹی امور کے ماہر اور سابق آئی جی سندھ افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ کسی بھی جیل پر حملہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عموماﹰ جیلوں میں سکیورٹی کے کئی لیول ہوتے ہیں، جن کو پار کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاﹰ ایسی کسی جیل میں جہاں کوئی اعلیٰ سیاسی شخصیات بھی قید میں ہوں۔ ان کو ٹارگٹ کرنا تو بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔‘‘